Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟
اپنے بچوں کو اردو پڑھنا نہ سکھا سکے، ہم نادم ہیں، ندامت کا بوجھ کچھ کم کرنے کے لیے ایک کام ہم نے ضرور کیا کہ ان سے گھر میں اردو بولی۔ نہ صرف بولی بلکہ انہیں بھی بولنے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ جب وہ انگریزی میں ہم سے بات کرتے ہم ہاتھ ہلا دیتے کہ بات پلے نہیں پڑی۔ آہستہ آہستہ وہ سمجھ گئے کہ ماں سے اردو بولی جائے گی تو جواب ملے گا، بے چاری اردو میڈیم ماں، ویسے لگتی تو نہیں۔
!مریض گھیرنے کے گر
آپ کے سوال پہنچ جاتے ہیں ہم تک۔ جواب بھی بے شمار ہیں ہماری زنبیل میں لیکن کب تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ ستاون برس کی زندگی کا ہر دن اور ہر موڑ ایک کہانی۔ ایک پڑاؤ۔ اور خانہ بدوشی۔
سرکاری اسپتالوں کا وہ رخ جو عوام سے اوجھل رہتا ہے
وقت کانچ کے بنے ان انسانوں کو آہستہ آہستہ پتھر میں بدل دیتا ہے، کہ ان کے اردگرد موجود تمام نظام ادھورا اور ٹوٹا پھوٹا ہے، آخر وہ کب تک لڑیں؟ کس کس سے لڑیں؟ حد تو یہ ہے کہ موت کے دروازے پر کھڑے مریض کے پیارے بھی اجنبی بن کر ذمہ داری سے دامن چھڑا جاتے ہیں۔
!موٹاپا، ماہواری، اور پولی سسٹک اوریز کا کھیل
سو یاد رکھیے کہ اصل موذی موٹاپا ہے۔ جہاں وزن بڑھا، چربی جمع ہوئی، ہارمونز کا توازن بگڑا، اووریز پولی سسٹک ہوئیں، ماہواری کا نظام تلپٹ ہو گیا، منہ پہ مہاسے اور بالوں کی بھرمار ہو گئی، شوگر اور بلڈ پریشر بڑھنے لگا، ہڈیاں اور جوڑ متاثر ہونے لگے، بانجھ پن بھی ساتھی بن گیا۔
ہم سب گھرانہ – بڑا ہے درد کا رشتہ۔۔۔
ہم سب سے تعلق بننے کے بعد ہمیں اپنا سمجھنے کے مراحل میں وہ پہلی ادیبہ جنہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے محبت بھرا پیغام بھیجا وہ تھیں گوہر تاج۔ ہمارے کالمز پہ گوہر کے الفت بھرے کمنٹس شدید سنگ باری کے ہجوم میں وہ جھونکا تھے جن سے بیمار کو بے وجہ قرار آ جاتا ہے۔ گوہر سے بات ہونا شروع ہوئی، آشنائی بڑھتی گئی اور پھر ہم نے آدھی ملاقات کو مجسم روپ دینے کا سوچا۔
ہنسی اور پھنسی
چونکہ ڈاکٹر تھے اور بہت سی سائنس پڑھ رکھی تھی سواب ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کھل کے ہنسنے سے تو بہت سی آکسیجن جسم میں جا کر دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہے اس سے دل کیسے مردہ ہو گا؟