Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ٹھنڈا مرد
علاج تو ایسی عورت کا ہی ہونا چاہیے نا جس کا شوہر یہ ماننے کو تیار ہی نہ ہو کہ کوئی مسئلہ ہے؟ اگر مسئلہ ہوتا تو شادی کے آغاز میں دو بچے کیسے ہو جاتے؟ کبھی کبھار کا جنسی تعلق دو بچوں کی صورت میں اس مرد کو ایک ایسے چبوترے پر کھڑا کر دیتا ہے جہاں وہ اپنی کمزوری کو کمزوری ہی نہیں سمجھتا۔
!میں کیوں زندہ رہوں؟ بائیس سالہ زچہ کا سوال
لاہور جنرل ہسپتال میں ایک بائیس برس کی لڑکی نے تیسری منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی کہ اس کے ہاں تیسری بچی کی ولادت ہوئی ہے۔ بائیس برس اور تیسری بچی۔ سوچیے کس عمر میں شادی ہوئی ہو گی؟ سولہ یا سترہ؟ بلوغت کا عرصہ ختم ہونے سے پہلے؟ زندگی کو برتنا سیکھنے سے پہلے۔ اٹھارہ میں ماں بنا دیا ہو گا شوہر نے۔ وہ جس کی اپنی ہڑک ختم نہیں ہوئی ماں کی گود کی گرمی میں منہ چھپانے کی، اسے اپنی گود میں ایک اپنے جیسی کو چھپانا پڑا ہو گا۔ زندگی یوں خراج لیتی ہے لڑکیوں سے۔ انیس بیس میں گود میں ایک اور بچی اور اب بائیس عمر میں تیسری بچی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک طوفان۔
اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر
مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک
مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔
اکیسویں صدی کی تعلیم یافتہ بھیڑ بکریاں اور شرم حیا سکھانے والے
ہمار ے نزدیک وہ بہت زیادہ مبارک کے مستحق ہیں کہ معاشرے میں ایک نئئے ٹرینڈ کے بانی ہیں اور وہ کام جو ضیا الحق کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ صرف میڈیا کی عورتوں کے ساتھ محدود رہے وہ آج ان کے پیروکاروں نے کر دکھایا۔
ایک اور لحاظ سے بھی وہ قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے بچارے کم عقل، اور نا سمجھ ماں باپ کو گائیڈ کیا ہے جو غم روزگار میں الجھ کے اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنانے کا خواب دیکھ کر، یونی ورسٹی تو بھیج دیتے ہیں مگر ساتھی طالب علموں سے لے کر استادوں تک، کو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں اسی لئے کسی بہت ہی ذہین اور فطین شخص نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ماں باپ کو آئینہ بھی دکھایا گیا اور تنبیہ بھی۔
کیوی – جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا
اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کر دیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔
آپ کے گھر کھسرا پیدا کیوں نہیں ہوا
ہم نے اپنی امی سے پوچھنے کی کوشش کی کہ یہ کون ہیں، امی نے جواب دینے کی بجائے فورا کوئی اور بات کر کے ہمارا دھیان بٹانا چاہا، ایک آدھ دفعہ کے لئے تو ٹھیک تھا اور ہم بہل بھی گئے مگر ان سوالوں کے جواب ہمیں کبھی نہ ملے، ہماری پر تجسس طبیعت نے جب ہار نہ مانی تو امی جھنجلا کے بولتیں ”چپ ہو جاؤ، دماغ نہ کھاؤ“ بہر حال اس ساری کہانی میں ہمیں ایک نام ازبر ہو چکا تھا جو ہم نے کسی دکاندار کو کہتے سنا تھا اور وہ تھا کھسرے