Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
حدیقہ کیانی نے زندگی کو برسوں میں ناپنا نہیں سیکھا
حدیقہ کو ہم اس کے بچپن کے ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ اپنی بڑی بہن عارفہ اور بھائی عرفان کے ساتھ لیاقت میموریل ہال راولپنڈی میں موسیقی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ ہم تقریری مقابلوں کے شیر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں بھی ان کی آواز کا سوز نشاندہی کرتا تھا کہ ان کی منزل بہت آگے ہے۔ ان کا دوسرا پڑاؤ لاہور ٹی وی تھا اور پھر اتفاق دیکھیے کہ ہم اس پروگرام کے میزبان تھے۔ حدیقہ نے زینہ بہ زینہ شہرت کی کامیابیاں سمیٹیں اور آج اس کے دامن میں اتنا کچھ ہے کہ اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے، گلاب گلاب ہی رہے گا۔
!مریض گھیرنے کے گر
آپ کے سوال پہنچ جاتے ہیں ہم تک۔ جواب بھی بے شمار ہیں ہماری زنبیل میں لیکن کب تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ ستاون برس کی زندگی کا ہر دن اور ہر موڑ ایک کہانی۔ ایک پڑاؤ۔ اور خانہ بدوشی۔
موت سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹوں کیا؟
سر گھوم گیا بڑی بی کی باتیں سن کر اور نظر کے سامنے اپنے یہاں کی عورت آ گئی جس پر شادی کے بعد ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے سوائے گھر داری، زچگی اور بچوں کی پرورش کے۔ اور جب وہ ان سے فارغ ہوتی ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی جاتی ہے کہ اب آپ اللہ اللہ کرو، آخرت کی تیاری۔
کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد
بے ہوشی سے پہلے ہم ضرور کہتے ہیں لو جی ہم جا رہے ہیں۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔ ( ہو سکتا ہے پچھلے جنم میں ہم ٹرک ڈرائیور رہے ہوں ) ۔ خیر اس دن بھی ان ڈائیلاگز کے بعد رات اندھیری ہو گئی اور بتیاں بجھ گئیں۔
ہوش آیا تو ہم ہسپتال کے کمرے میں بستر پر دراز تھے۔ آپریشن کی تکلیف تھی لیکن وہ تو ہونی ہی تھی۔ دوسرے دن سر راؤنڈ پر آئے تو کافی سیریس نظر آئے۔ اس دن معمول سے کچھ زیادہ بات کی۔
محترمہ زیبا شہزاد کی مرد نوازی
دل باغ باغ ہے اور ایک فخر کا احساس بھی ہے کہ ہم گنہگاروں کے قبیلے میں کوئی تو پوتر نکلا
کسی نے تو ہم مادر پدر آزاد عورتوں کا پردہ چاک کر کے معاشرے کے مظلوموں کو ہماری اصلیت دکھائی
بونے آدمی اور عورت کا سہارا
لکھا تو نامی گرامی مرد نے تھا پر عنوان بڑا زنانه تھا۔ (زنانہ جمہوریت) پڑھا تو اندر سے اور بھی زنانہ تھا۔ عورت اور ہیجڑے میں بال برابر فرق نظر آیا تھا انہیں۔ خیر ہیجڑا بھی ہماری طرح ہی کی مخلوق ہے اس لئے ہمیں تو فرق نہیں پڑتا لیکن وہ زندگی کو کس رخ سے دیکھتے ہیں، اس کی قلعی کھل گئی۔