Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط
ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛
بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔
!راجہ گدھ کا تانیثی تناظر اٹھارہویں/ آخری قسط
یہ تمام عورتیں لڑکیاں کسی نہ کسی طرح مردوں کے نارمل نیوکلئیس سے کٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے ان میں بیشتر عورتوں کو مردوں کا زیادہ قرب ملتا ہو لیکن معاشرے کے رسمی طریقے کے مطابق وہ کیرئیر گرلز تھیں ۔ ایسی مینڈکیاں جنہیں ہلکا ہلکا زکام ہو چکا تھا وہ اعلانیہ سگریٹ پیتی تھیں کماؤ سپوت کی طرح گھر پیسے بھیجتی تھیں ۔ ان کے بھائی چچا ماموں نہ جانے کون تھے ، کہاں تھی اور اگر تھے تو کس حد تک ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو سکتے تھے ؟ یہ سب تو چھپکلی کی کٹی ہوئی دم کی طرح پھڑک رہی تھیں ، تڑپ رہی تھیں اور اپنے اصلی رسمی نیوکلئیس کی تلاش میں تھیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پندرہویں قسط ;
امریکہ جانے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے میں ثانیہ نہ جانے کتنی بار مری اور کتنی بار زندہ ہوئی مگر آخر کار اس نے مطلوبہ رقم جمع کر ہی لی۔ وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔ لیکن اس بار اس نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر جلاد کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رسی کا وہ پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔