راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پندرہویں قسط
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پندرہویں قسط

روشن؛
‏‎قیوم شدید اینگزائٹی کا شکار ہو کر رات رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ ایک دن بھابی خوشخبری سناتی ہیں کہ قیوم کے حسب منشاء لڑکی ڈھونڈ لی گئی ہے۔
‏‎ستاروں نے بھی اسے بے نقاب نہیں دیکھا صوم و صلوۃ کی پابند، سلائی کڑھائی جانتی ہے، کھانا اچھا بناتی ہے۔
‏‎دیکھیے بانو کے نزدیک نقاب، باورچی خانہ اور سلائی مشین کس بات کی نشانیاں ہیں؟
‏‎ماڈرن اور پڑھی لکھی بے نقاب لڑکی تو اس لئے بے اعتبار ٹھہرے گی کہ نہ جانے کہاں کہاں جاتی گی؟ کس کس سے مل کر کیا کچھ نہ کرتی ہو گی؟
اب سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں انتہائی پڑھے لکھے لڑکوں نے کم پڑھی لکھی اور گھر میں رہنے والی لڑکیوں سے شادی کی خواہش کیوں کی؟ بانو کا فلسفہ بہت سے ذہنوں کو اسیر کر چکا تھا اور یہی مقصد بھی تھا۔
بالکل باکرہ باعصمت لڑکی ہے جیسی تمہیں درکار ہے ویسی۔ ڈبے میں پیک ہے وہ پوری طرح۔ تم ہی اس کا ربن کھولو گے پہلی مرتبہ۔
‏‎بھابھی کے فقرے کس قدر مصنوعی اور بازاری ہیں۔ ایک ایسی عورت جو اپنے دیور سے بالکل بھی بے تکلف نہیں بلکہ اکھڑی اکھڑی رہتی ہے۔ ایک دم ایسے انداز میں گفتگو؟ کردار کا ایسا تضاد؟
”ڈبے کا ربن کھولنا؟“
‏‎کیا یہ جملہ اس لئے لکھا گیا کہ ناول نگار کو پسند ہے۔ شاید بانو ضرورت نہیں سمجھتیں کہ کرداروں کے ارد گرد ماحول تخلیق کرتے ہوئے ان سے وہ کہلوائیں جو فطری محسوس ہو اور قاری سوچے کہ ہاں یہ بات یہیں ہونی چاہیے تھی۔
‏‎اگلا جملہ سنیے : وہ خوبصورت بھی بہت ہے، پڑھی لکھی تو خیر زیادہ نہیں۔
‏‎کہانی کو گورنمنٹ کالج سے گھما پھرا کر اندرون شہر تک لاتے ہوئے بھی بانو بس ایک بات نہیں بھولیں۔ پڑھی لکھی لڑکی اور گلبرگ۔
‏‎ ”سخت پردے میں پلی ہے کسی سے ملنے کی اجازت نہیں۔ خوش نصیب ہو قیوم۔ ایسی لڑکی اب ان ہی علاقوں میں مل سکتی ہے اگر گلبرگ میں ڈھونڈتے تو بڑی تیز لڑکی ملتی۔“
‏‎اور۔ شادی کی رات روشن قیوم کو بتاتی ہے کہ وہ حاملہ ہے۔ گلبرگ کو کوستے کوستے اب کیا کہیں اندرون شہر کی پیچ دار گلیوں کو؟
‏‎قیوم اس سے پوچھتا ہے کہ کون ہے؟ بچے کا باپ؟
‏‎ ”ہماری گلی میں پتنگوں کی دکان ہے اس کے باپ کی۔ اب تو وہ جدے چلا گیا۔
‏‎ایک روز وہ فلم دیکھنے گیا تو میرے بھائیوں نے اسے پکڑ لیا۔ اتنا مارا۔ اتنا مارا۔ بھلا اسے کیوں مارتے تھے یہ لوگ قیوم صاحب، قصور تو سارا میرا تھا، سارا میرا۔ اس نے کئی بار میری منتیں کیں ہاتھ جوڑے لیکن میں اسے چھوڑ ہی نہیں سکتی تھی، نہ اس زندگی میں نہ
‏‎پھر تم نے یہ شادی کیوں کی؟
‏‎ ”میرے گھر والے اگر اسے جان سے مارنے کی دھمکی نہ دیتے تو۔ تو میں کبھی رضا مند نہ ہوتی“ ۔
‏‎دیکھیے ایک اور عورت سامنے آ گئی معمولی پڑھی لکھی پابندیوں میں زندگی گزار کر بھی اپنے فیصلے خود کرنے والی۔ محبت کرنے کا فیصلہ، جنسی تعلقات کا فیصلہ اور شادی کی پہلی ہی رات نکاح میں لینے والے کو سچ بتانے کا فیصلہ۔
‏‎اگر وہ یہ سب کچھ چھپانا چاہتی تو یہ ممکن تھا۔ لیکن وہ اپنی اور محبوب کی زندگی بچانے کی خاطر اپنی جان پر کھیلنے پر بھی تیار تھی۔ قیوم سب کچھ سن کر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ روشن کو اس کے محبوب کے پاس بھیج دے گا اور بھابھی سمیت کسی کو کچھ بھی نہیں بتائے گا۔
‏‎ روشن میں کسی سے ذکر نہیں کروں گا لیکن اگر جدے والا کسی وجہ سے نہ آ سکا۔ اور بچے کی آمد ہو گئی تو۔ ، تو تم اسے میرا بچہ ظاہر کرنا۔
حرام حلال کے متعلق قطعی خاموشی۔ بچے کے باپ کا انتظام بھی موجود۔ جدے والا آ گیا تو ٹھیک، نہیں تو قیوم تو ہے ہی۔ کیوں؟
‏‎اس لئے کہ روشن کا تعلق گلبرگ یا تعلیم یافتہ طبقے سے نہیں۔ باپ بھی بیوروکریٹ نہیں۔ کم پڑھی لکھی گھریلو عورت کی عزت کا معاملہ ہے سو اس پر کسی فلسفے کی گنجائش نہیں بنتی۔
‏‎قیوم شادی کی رات روشن کو تسلی دینے کے بعد لارنس گارڈن چلا جاتا ہے۔ وہاں اسے نو گزا آدمی نظر آتا ہے اور وہ بے ہوش ہو کر ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔ پانچ دن بے ہوش رہ کر جب ہوش میں آتا ہے تو علم ہوتا ہے نروس بریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔
کیا اس بریک ڈاؤن کا سبب بظاہر باکرہ بیوی کا حاملہ نکلنا ہے؟ باکرہ یا کنوارہ ہونے کی یہ حد قیوم پر کیوں جاری نہیں ہوتی؟ قیوم بھی تو سیمیں اور عابدہ سے جنسی تعلق بنا چکا ہے، اسے بیوی کے حاملہ نکلنے کا اس قدر صدمہ فطری نہیں لگتا۔
‏‎گھر واپس آ کر وہ گم صم حالت میں دن گزارتا ہے۔ روشن اور وہ ایک کمرے میں ضرور سوتے ہیں لیکن بستر علیحدہ ہیں۔ ‏‎ایک روز روشن قیوم کو افتخار کا خط دکھاتی ہے جس میں اس نے خوشی کا اظہار کیا ہے کہ روشن قیوم کو چھوڑ کر افتخار سے شادی کر سکتی ہے۔ ‎مقررہ وقت پر افتخار باہر سے آتا ہے روشن کی پھوپھی کے گھر نکاح ہوتا ہے اور وہ دونوں واپسی کی فلائٹ لے لیتے ہیں۔
‏‎یہاں کہانی میں تکنیکی جھول محسوس ہوتا ہے اور خاص طور پراس لیے کہ حلال و حرام پر اساس کرنے والے ناول میں تو نکاح پر نکاح جیسے مسائل کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ یاد رہے کہ جب عابدہ آخری بار قیوم سے ملتی ہے تب قیوم اسے کہتا ہے : ‏‎ تم اگر یہاں رہو گی تو میں ٹھیک ہو جاؤں گا اگر تم ایسے نہ رہنا چاہو تو میں تم سے نکاح کر لوں گا۔
‏‎ہے نا مت ماری گئی تمہاری۔ میں کیوں نکاح پہ نکاح کروں گی؟ ”عابدہ نے کہا۔
‏‎لیکن جب روشن کی باری آئی تب نہ جانے کس کی مت ماری گئی کہ قیوم نے روشن کو طلاق نہیں دی اور روشن نکاح کر کے چلی بھی گئی۔
‏‎روشن کی اس شادی کے متعلق بانو قطعی کوئی لیکچر نہیں دیتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ تیزی سے ناول ختم کرنا چاہتی ہیں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *