Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر ایک
راجہ گدھ خریدی، پڑھی اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گئے۔ یہ اسیری اس حد تک بڑھی کہ دوسروں کو بھی یہی ناول پڑھنے کی صلاح دینے لگے۔ لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ آگ کا دریا ، دستک نہ دو اور اداس نسلیں کئی برس پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ لیکن راجہ گدھ میں کیا تھا جو فوراً ہی ہمارے پسندیدہ ناولوں کی صف میں پہلے نمبر پر جا کھڑا ہوا
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط
محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر تین
سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔ اس نے موری بند جینز کے اوپر سفید وائل کا کرتا پہن رکھا تھا۔ گلے میں حمائل مالا نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے بیگ میں غالباً نقدی ، لپ اسٹک ، ٹشو پیپر تھے۔ ایک ایسی ڈائری جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے درج تھے۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے لگتے تھے۔کلاس میں پہلے دن چھڑنے والی بحث کو خود کشی کی طرف لے کر جانے والی سیمی ہی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط
مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ دوسری قسط
نبیل پدرسری معاشرے کی ایک ایسی تصویر ہے جسے جس رخ سے بھی دیکھیں، وہ ملگجی اور داغ دار ہی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے، دنیا بدلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے محنت کرنا نہیں چاہتا۔ عورتوں سے دوستی پہ یقین رکھتا ہے لیکن جونہی کسی عورت سے دوستی کرتا ہے، جنسی خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ مردوں کے درمیان بے تکلف دوستی کو تسلیم کرتا ہے لیکن ثانیہ کے پرخلوص التفات کو محض دوستی سمجھنے پر تیار نہیں۔ اس کے خیال میں ایک عورت کسی مرد سے دوستی کے بعد اتنا خیال تب ہی رکھ سکتی ہے جب محبت بھی کرتی ہو۔ وہ ثانیہ کو غیر شادی شدہ اس لئے سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں کوئی بھی شادی شدہ عورت کسی مرد کو دوست بنا کر لگاؤ کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط
تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟