
Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیرہویں قسط ;
اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی میں اس گھر تک نہیں پہنچ سکی جسے اپنا کہہ سکوں۔ میں نے کتنے گھر بدلے ہیں، کتنے بستر بدلے ہیں، کتنے ہی لوگوں کو اپنا کہا ہے، کتنے مردوں میں اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک وہ مرد نہیں ملا جو میرا ہو، ہر مرد شوہر بنتے ہی بدل جاتا ہے ۔ یہ باقاعدہ شادی بڑی مہنگی ہوتی ہے آدمی کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑ لیتی ہے۔ عورت اپنا سب کچھ دے کر بھی اپنے آپ کو خرید نہیں سکتی، واپس آنے کے لیے میں دہکتے ہوئے ان دنوں پر ماتم کرتی ہوئی آئی ہوں جن میں ہر دن سو سو سال کا تھا۔“

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر دو
کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد سیمی خودکشی کر لیتی ہے ۔ قیوم اس کی موت کے بعد بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے۔ ایسے میں پروفیسر سہیل اسے یوگا کی مشقوں کا مشورہ دیتا ہے۔ قیوم اپنے بڑے بھائی کے ہاں رہائش پذیر ہے اور اسے ریڈیو پروڈیوسر کی نوکری مل چکی ہے۔ انہی دنوں بھابھی کی کزن عابدہ بھی اولاد نہ ہونے پر شوہر اور ساس کے طرز عمل پر ناراض ہو کر وہ وہاں رہنے آتی ہے۔ عابدہ بہت باتونی ، متجسس اور گھریلو عورت ہے اور آہستہ آہستہ اسی کی تحریک پر قیوم کے اس سے جنسی تعلق بنتا ہے۔ مصنفہ کے نزدیک ان تعلقات کا پوشیدہ محرک عابدہ کی اولاد پانے کی خواہش ، شوہر کی دوری اور قیوم کے لیے جنسی اساس والی یوگا مشقیں ہیں۔ لیکن جب عابدہ کا شوہر اُسے منانے آتا ہے تو وہ موقع غنیمت جان کرواپس لوٹ جاتی ہے۔ پروفیسر سہیل پاگل پن ، خود کشی اور جینیات کو حرام حلال کی تھیوری سے جوڑ کر قیوم کو سناتا ہے۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! بارہویں قسط
اس مرحلے پر بغیر نکاح کے جنسی تعلق اور گدھ کی مردار سے رغبت کے تھیسس کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا مصنفہ ناول کے بنیادی موضوع کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے قیوم کی گدھ سے مماثلت کے خیال میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ عابدہ کی اپنے شوہر سے اولاد نہ ہونا اور اس کمی کو قیوم کے نطفے سے مکمل کرنے کی کوشش کا بیان پڑھتے ہوئے قاری اس منطق کو کیسے بھول سکتا ہے جو سیمی اور قیوم کے تعلق پر منطبق کی گئی تھی۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط
آفتاب کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ بھی سیمی کی زبانی جس نے اسے ببانگ دہل چاہا۔ لیکن جسے چاہا وہ انتہائی کمزور فطرت فلرٹ مرد نکلا۔ جس نے منگیتر ہونے اور اپنی تنگ نظر گھریلو روایات کا علم ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے یقین دلایا کہ وہ زندگی اکٹھی گزار سکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کر لی۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛
بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! دسویں قسط
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔