راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! سولہویں قسط
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! سولہویں قسط

بھابھی ؛
قیوم اپنے بھائی کے گھر رہتا ہے۔ بھابی اور قیوم کے تعلقات میں بے تکلفی کا عنصر عنقا ہے۔
‏‎ان کا میرا بھابھی دیور کا رشتہ نہ تھا۔ چور سپاہی کی طرح ہم دونوں ایک دوسرے سے بھاگتے تھے۔
‏‎
دونوں آپس میں بہت ہی سرسری قسم کی گفتگو کرتے ہیں ۔
‏‎وہ ہمیشہ مجھ سے ایسے بات کرتیں جیسے نامحرموں سے کی جاتی ہے نگاہیں جھکا کر، آواز میں سختی پیدا کر کے . . . بار بار کھانس کر۔
‏‎”تمہارے کپڑے دھوبی کو دے دئیے تھے۔”
‏‎اچھا جی ۔
‏‎کھانا نعمت خانے میں دھرا ہے۔
‏‎اچھا جی ۔
‏‎رات دیر سے آؤگے ؟
‏‎اچھا جی۔ وغیرہ
‏‎
بھابھی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عام سی عورت جو مرد اور عورت کے تعلق کو روایتی عینک سے دیکھتی ہے ۔ کم از کم بانو نے اسے یہی روپ عطا کیا ہے لیکن بیچ بیچ میں بھابھی کا کردار بانو کے قلم کی نہ مانتے ہوئے خودسری پہ اتر آتا ہے۔ بانو ناول کی سچوئشن بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ بھابھی کا underplay بھانپ ہی نہیں پاتیں۔آئیے دیکھتے ہیں کیسے ؟
‏‎قیوم عابدہ کی زبانی سیمی کا ذکر سن کر چونک اٹھتا ہے کہ بھابھی نہ صرف سیمی سے واقف بلکہ انہیں تفصیلات کا بھی علم ہے جو اس نے ارد گرد والوں کو بھی سنا رکھی ہیں۔
‏‎”بھابھی بتا رہی تھی کہ آپ کا کسی لڑکی سے چکر تھا وہ آپ کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی. . . اس کے کسی اور لڑکے سے بھی تعلقات تھے . . . ہے نا ؟
‏‎اگلی بار بھابھی قیوم کو مزید حیران کرتی ہے جب وہ قیوم کو اس کی بگڑتی صحت پہ نصیحت کرتی ہے۔
‏‎“سنا ہے وہاں ریڈیو پر کوئی چکر چل رہا ہے تمہارا . . . کسی بوڑھی عورت کے ساتھ۔ ایسے چکروں سے بچنا چاہئے آدمی ایک بار پھنس جائے تو پھر نکل نہیں سکتا ویسے ادھر والیوں کو پھنسانے کے طریقے خوب آتے ہیں۔
‏‎کچھ خاندان کی عزت کا ہی خیال کیا ہوتا…نوکری کر لی ہے . . . تو اب شادی بھی کر لو . . . جگہ جگہ حرام کھانے سے کیا حاصل ؟شادی حلال چیزوں میں سب سے افضل ہے۔
‏‎
بھابھی کا کردار گو کہ سیدھی سادھی پاکباز عورت کا ہے لیکن اس کے اندر چھپی منافقت قاری کو نظر آتی ہے۔
‏‎
بھابھی قیوم کے سیمی اور امتل سے تعلقات کے بارے میں خوب باخبر ہے۔ وہ دونوں عورتوں سے کبھی نہیں ملی ، نہ پس منظر سے واقف ، پھر بھی قیوم کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے تحقیر کی نظر سے دیکھ رہی ہے ۔
‏‎
مگر ایک کردار بھابھی کے نظریات کو خاک میں ملا تے ہوئے ان میں چھپی منافقت عیاں کر رہا ہے۔
‏‎
عابدہ ، بھابھی کی شادی شدہ کزن جس نے بلاخوف و خطر بھابھی کے دیور کے کمرے میں آدھی آدھی رات تک ڈھیروں وقت گزارا اور جنسی تعلقات بنائے مگربھابھی صولت نے نہ کوئی مداخلت کی اور نہ عابدہ کو منع کیا ۔
کیوں ؟
جبکہ اسی کی زبان سے نکلے الفاظ تھے :
جگہ جگہ حرام کھانے سے کیا حاصل ؟شادی حلال چیزوں میں سب سے افضل ہے۔
‏‎کیا عابدہ کے اس طرز عمل پر بھابھی کے کردار میں سے وہ عورت نکل کر باہر آئی ہے جو بچے کی چاہ میں گرفتار دوسری عورت کے اپنے دیور سے جنسی تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتی؟
بانو کا حرام حلال کا فلسفہ بھابھی زبان سے ادا تو کرتی ہے لیکن جب اپنے مفاد کا معاملہ آتا ہے تو اپنے عمل سے اُسی فلسفے کو رد کرتے ہوئے ایک بااختیار عورت کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
‏‎ایک اور واقعہ بھی قاری کو اچنبھے میں ڈالتا ہے۔ تنک مزاج اور اپنے آپ میں رہنے والی بھابھی،روشن کے باکرہ پن کو انتہائی عامیانہ اور بازاری انداز سے بیان کرتی ہے۔
‏‎ ڈبے میں پیک ، ربن کھولنے والا جملہ امتل کی زبان سے اگر کہلوایا جاتا تو شاید مناسب لگتا مگر بھابھی کی زبان سےسُن کر یوں لگتا ہے کہ بانو اس کردار کی شخصیت میں کسی اور کو گڈمڈ کر رہی ہیں ۔
‏‎قیوم کی ماں ؛
‏‎قیوم ماں کو یاد کرتے ہوئے کہانی سناتاہے کبھی اپنی زبانی، کبھی ماں اور کبھی اپنے باپ کی زبانی۔
‏‎قیوم کی ماں زندگی میں کبھی اپنے میکے نہیں گئی یہ بات قیوم کو حیران کرتی تھی۔
‏‎اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس نے قیوم کو اپنی کہانی کچھ یوں سنائی ۔
جب تو جوان ہو جائے گا تو اپنے مامے کے پاس جانا . . . منظور الہی قصوری کے پاس۔
‏‎پہلی بار میں نے اپنے ماموں کا نام سنا ۔
‏‎جس روز میں گھر سے نکلی تھی اس روز پھاٹک پر میراثی سہرے لگا کر گئے تھے میری بھابھی کے لڑکا ہوا تھا اس روز ۔
‏‎تو . . . کیوں نکلی تھی ماں ؟
‏‎میں چوبارے میں رہتی تھی بھابھی کے ساتھ اور سارا دن بلھے شاہ کے مزار کی طرف منہ کر کے اس کے بچوں کو کھلایا کرتی تھی . . . تین بچے تھے میری بھابھی کے . . . سب کو میں نے گودی کھلایا تھا۔
‏‎اس روز سارے قصور پر مٹی کا بادل چڑھا تھا۔ قوال بلھے شاہ کے مزار پر چوکی بھر رہے تھے میں تیسری منزل پر کبوتروں کو دانہ ڈال رہی تھی ۔ پتہ نہیں قوالوں کی آواز میں کچھ تھا کہ آسمان چڑھی مٹی میں کوٹھے سے اتری بڑے پھاٹک سے نکلی اور مزار پر چلی گئی۔
‏‎قوالوں سے آگے چھوٹے برآمدے میں ستون کے ساتھ سر لگائے تیرا باپ بیٹھا تھا۔ اس روز میں مزار سے واپس نہیں گئی۔ . . . میری کونسی ماں تھی جس سے میں اجازت لینے جاتی ؟
‏‎دیکھیے قیوم کی ماں کس قدر اعتماد سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ جو بھابھی کےبچے پال پال کر اوبھ چکی ہے اور اپنا گھر بسانا چاہتی ہے۔ اسے مزار پہ بیٹھا ایک مرد اچھا لگا اور بنا کسی مخمصے یا خوف، وہ اس کے ساتھ چلی گئی۔
‏‎بانو نے اس واقعے کوبلھےشاہ کے مزار، قوال، آندھی کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے روحانیت یا پراسراریت کا رنگ دینے کی کوشش تو کی ہے ۔ لیکن کردار اپنے عمل سے بتا رہا ہے کہ وہ عورت اپنی مرضی سے جینے کافیصلہ کرچکی ہے۔
‏‎
سوچیے کیا قیوم کی ماں اپنے فیصلے اور عمل میں سیمی سے کم ہے ؟
جس نے جسے پسند کیا، اس کے ساتھ گھر سے نکلی اور ڈنکے کی چوٹ پر اس کے ساتھ عمر گزار دی ۔
یہاں بھائی کی بہن سے بے نیازی عجیب ہے، بہن گھر سے چلی گئی اور بھائی نے کوئی فکر ہی نہیں کی۔ ہے نا حیران کن؟ خاص طور پر اس ثقافتی ماحول میں جو پنجاب کے چھوٹے شہروں کا ہے۔
‏‎قیوم کا باپ ماں کو اپنے گھر کی چودھرانی کا درجہ دیتے ہوئے بچے پیدا کرتا ہے اور اس کے مرنے کےبعد بھی اسکی یاد میں گاؤں نہیں چھوڑتا۔
‏‎قاری سمجھ نہیں پاتا کہ بانو نے قیوم کے باپ کو گدھ کے مقام پر کیوں لا بٹھایا ہے جو کسی عورت کو دھوکا دینے میں ملوث نہیں ۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *