Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! گیارہویں قسط
لیکن اس موڑ پر سیمی کا کردار بانو کے قلم پر حملہ آور ہو کر عابدہ کو اس روپ میں ڈھل جانے پر مجبور کرتا ہے جس بنیاد پر بانو سیمی کو بری عورت دکھانا چاہتی ہیں۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا حرام جنسی تعلق۔ عابدہ ایک اجنبی مرد کی طرف اسی طرح بڑھتی ہے جیسے سیمی۔ لیکن عابدہ اس لعن طعن سے محفوظ رہی جس طرح سیمی کو راندہ درگاہ دکھایا گیا۔ عابدہ کے منہ میں زبان تو بانو کی ہے لیکن وہ، وہ کر رہی ہے جو سیمی نے کیا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! بارہویں قسط
اس مرحلے پر بغیر نکاح کے جنسی تعلق اور گدھ کی مردار سے رغبت کے تھیسس کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا مصنفہ ناول کے بنیادی موضوع کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے قیوم کی گدھ سے مماثلت کے خیال میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ عابدہ کی اپنے شوہر سے اولاد نہ ہونا اور اس کمی کو قیوم کے نطفے سے مکمل کرنے کی کوشش کا بیان پڑھتے ہوئے قاری اس منطق کو کیسے بھول سکتا ہے جو سیمی اور قیوم کے تعلق پر منطبق کی گئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط
تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چھٹی قسط
چتر لیکھا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے عہد کی عظیم رقاصہ وہ بہت بڑی تخلیقی قوت اور اپنے زمانے کی ایسی عالم تھی کہ بڑے بڑے جوگی اور عالم اس کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ اس کے گھر آتے تھے اس سے گفتگو کرتے تھے۔ چتر لیکھا اپنے جسم سے شعر کہتی تھی اور اپنے ہاتھوں کی حرکت سے لوگوں کو وجود میں لے آتی تھی۔ اور تم ثانیہ سمجھ رہی ہیں نا آپ۔ آپ کی شاعری میں لفظ اس طرح حرکت کرتے اور سننے والے کی روح تک پہنچتے ہیں کہ جیسے چتر لیکھا رقص کر رہی ہو۔ ثانیہ کی شاعری میں ایک ڈونڈی ہے، ایک موہ ہے، ایک لبھاؤ ہے جو اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ جب یہ ہنستی ہیں نا تو ان کا موہ اور بڑھ جاتا ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط
آفتاب کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ بھی سیمی کی زبانی جس نے اسے ببانگ دہل چاہا۔ لیکن جسے چاہا وہ انتہائی کمزور فطرت فلرٹ مرد نکلا۔ جس نے منگیتر ہونے اور اپنی تنگ نظر گھریلو روایات کا علم ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے یقین دلایا کہ وہ زندگی اکٹھی گزار سکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کر لی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! تیرہویں قسط
سب سے پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو وہ قاضی کے کمرے میں بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ اس نے فل میک اپ کر رکھا تھا۔ برقعے کا نچلا سیاہ کوٹ جسم پر تھا اور نقاب کرسی پر لٹک رہا تھا۔ اس نے کوئی تازہ لطیفہ سنایا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں بیٹھے ہوئے قاضی کے تین حواری ہنس رہے تھے۔