Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر دو
کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد سیمی خودکشی کر لیتی ہے ۔ قیوم اس کی موت کے بعد بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے۔ ایسے میں پروفیسر سہیل اسے یوگا کی مشقوں کا مشورہ دیتا ہے۔ قیوم اپنے بڑے بھائی کے ہاں رہائش پذیر ہے اور اسے ریڈیو پروڈیوسر کی نوکری مل چکی ہے۔ انہی دنوں بھابھی کی کزن عابدہ بھی اولاد نہ ہونے پر شوہر اور ساس کے طرز عمل پر ناراض ہو کر وہ وہاں رہنے آتی ہے۔ عابدہ بہت باتونی ، متجسس اور گھریلو عورت ہے اور آہستہ آہستہ اسی کی تحریک پر قیوم کے اس سے جنسی تعلق بنتا ہے۔ مصنفہ کے نزدیک ان تعلقات کا پوشیدہ محرک عابدہ کی اولاد پانے کی خواہش ، شوہر کی دوری اور قیوم کے لیے جنسی اساس والی یوگا مشقیں ہیں۔ لیکن جب عابدہ کا شوہر اُسے منانے آتا ہے تو وہ موقع غنیمت جان کرواپس لوٹ جاتی ہے۔ پروفیسر سہیل پاگل پن ، خود کشی اور جینیات کو حرام حلال کی تھیوری سے جوڑ کر قیوم کو سناتا ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط
محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! نویں قسط
ثانیہ ہسپتال میں مردہ بچے کو جنم دیتی ہے اور اکیلے ہی اس کی تدفین کر دیتی ہے۔ بچے کی موت پہ اس کا…
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط
تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟
ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! آٹھویں قسط
میں نے آئینے میں کھڑی ہوئی عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا، تیرا پیٹ اتنا پھولا ہوا کیوں ہے؟ وہ ہنس دی،…
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! چودہویں قسط
امتل سے مل کر میں نے سیمی کی یادوں کو قفل لگا کر رکھ دیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہتا تھا کہ امتل کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر رونے لگوں۔“ امتل قیوم کو لارنس گارڈن لے جاتی ہے جہاں وہ قیوم کو ایک شاعر سے اپنی پرانی محبت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک طوفانی رات جب وہ گھر سے نقدی اور زیورات لے کر شاعر کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں نے رات اکٹھے ایک ہوٹل میں گزاری اور جب وہ سو کر اٹھی تو شاعر بمعہ نقدی اور زیورات کے بھاگ چکا تھا۔