Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط
ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ بارہویں قسط ;
ان ملاقاتوں میں امثال کی کوشش ہوتی کہ بوس وکنار کیا جائے جس پہ ثانیہ کبھی مزاحمت کرتی اور کبھی ہتھیار ڈال دیتی ۔ ڈراپ سین تب ہوا جب ایک دن چھت پہ نبیل نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور غصے میں پاگل ہو کر امثال سے گھتم گتھا ہو گیا۔ جب لڑتے لڑتے دونوں تھک گئے تو امثال نے نبیل کو بتایا کہ اس سب میں ثانیہ کا کوئی دوش نہیں وہی ثانیہ سے محبت کرنے لگا ہے ۔ لیکن اب وہ وعدہ کرتا ہے کہ نبیل کے گھر آنا چھوڑ دے گا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط
کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛
بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔