Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! دسویں قسط
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! چودہویں قسط
امتل سے مل کر میں نے سیمی کی یادوں کو قفل لگا کر رکھ دیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہتا تھا کہ امتل کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر رونے لگوں۔“ امتل قیوم کو لارنس گارڈن لے جاتی ہے جہاں وہ قیوم کو ایک شاعر سے اپنی پرانی محبت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک طوفانی رات جب وہ گھر سے نقدی اور زیورات لے کر شاعر کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں نے رات اکٹھے ایک ہوٹل میں گزاری اور جب وہ سو کر اٹھی تو شاعر بمعہ نقدی اور زیورات کے بھاگ چکا تھا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پانچویں قسط
شادی کے کچھ عرصے بعد ہی علم ہوجاتا ہے کہ گھر میں خاک اڑ رہی ہے۔ ثانیہ فاقے کرنے پر مجبور ہے اور نبیل اپنی پسند کی عورت گھر لانے کے بعد بے نیاز ہو کر شعر و شاعری کی محفلوں میں پھر سے گم ہو چکا ہے۔ وہی طور طریقے جو شادی سے پہلے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ شاعر کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے غفلت اس کی سہل پسند فطرت کی عکس ہے اور یہاں شاعر کی شاعری پر سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! تیرہویں قسط
سب سے پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو وہ قاضی کے کمرے میں بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ اس نے فل میک اپ کر رکھا تھا۔ برقعے کا نچلا سیاہ کوٹ جسم پر تھا اور نقاب کرسی پر لٹک رہا تھا۔ اس نے کوئی تازہ لطیفہ سنایا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں بیٹھے ہوئے قاضی کے تین حواری ہنس رہے تھے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط
کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔