راجہ گدھ کا تانیثی تناظر اٹھارہویں آخری قسط!
|

!راجہ گدھ کا تانیثی تناظر اٹھارہویں/ آخری قسط

آخر میں ‏‎سب سے بڑا سوال کہ یہ سب عورتیں بانو کے قلم سے آزاد کیسے ہوئیں ؟
‏‎اس کا جواب ان طنزیہ جملوں میں ہے جو بانو نے تعلیم یافتہ عورت کے لیے سوچے اور لکھے ۔ان جملوں کی تپش جب ان عورتوں تک پہنچی ، تب ان سب نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی سیمی کی طرح آزاد زندگی گزاریں گی۔
‏‎یہ پڑھی لکھی لڑکیاں کتنی ضدی ہوتی ہیں اپنی ضد کی راہ میں وہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرنے سے نہیں چوکتیں۔
( قیوم, 183 صفحہ نمبر)
‏‎مجھے تعلیم یافتہ ، آزادی پسند، بے گھر لڑکیوں کے مستقبل سے خوف آنے لگا ۔( قیوم, صفحہ نمبر 183)
‏‎تعلیم یافتہ گھر سے نکلی لڑکی بڑی ظالم ہوتی ہے ۔( سیمی ، صفحہ نمبر 187 صفحہ نمبر)
‏‎یہ کیرئر گرلز کی پناہ گاہ تھی ، یہاں کسی کو کسی سے غرض نہیں تھی۔ ( قیومُ، 180 صفحہ نمبر)
‏‎ماڈرن لڑکی کو اپنی جذباتی زندگی پر قابو پانا نہیں آتا ۔ ( قیوم ، صفحہ نمبر 179)
‏‎تعلیم یافتہ اولاد کبھی والدین کے ساتھ رہ ہی نہیں سکتی۔ ( سیمی صفحہ نمبر 171)
یہ تمام عورتیں لڑکیاں کسی نہ کسی طرح مردوں کے نارمل نیوکلئیس سے کٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے ان میں بیشتر عورتوں کو مردوں کا زیادہ قرب ملتا ہو لیکن معاشرے کے رسمی طریقے کے مطابق وہ کیرئیر گرلز تھیں ۔ ایسی مینڈکیاں جنہیں ہلکا ہلکا زکام ہو چکا تھا وہ اعلانیہ سگریٹ پیتی تھیں کماؤ سپوت کی طرح گھر پیسے بھیجتی تھیں ۔ ان کے بھائی چچا ماموں نہ جانے کون تھے ، کہاں تھی اور اگر تھے تو کس حد تک ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو سکتے تھے ؟ یہ سب تو چھپکلی کی کٹی ہوئی دم کی طرح پھڑک رہی تھیں ، تڑپ رہی تھیں اور اپنے اصلی رسمی نیوکلئیس کی تلاش میں تھیں۔
(مصنفہ ، صفحہ نمبر 134)
‏‎وائی ڈبلیو سی اے کے ہوسٹل سے لے کر فاطمہ جناح تک آزاد عورتوں اور لڑکیوں کا ٹریننگ کیمپ تھا۔ گھروں سے بیزار ، روزگار کی تلاش میں پریشان ، ڈاکٹر بننے اور مستقبل سنوارنے کی آرزو میں بے قرار ، عاشقوں سے رنجیدہ ، شوہروں کی تلاش پر مصر ، گھر والوں سے کٹی ہوئی ، گھر والوں کی یاد میں بے قرار بہت سی عورتیں بہت سی لڑکیاں رہتی تھیں ۔
‏‎فاطمہ جناح کالج سے لے کر وائی ڈبلیو سی اے کے ہوسٹل تک آہوں کا مرغولہ اس رقبے پر معلق نظر آیا ۔ خاموشی ہوتی ہے تو ہلکی ہلکی سرگوشیاں اور آہیں بھی سنائی دیتی ہیں ۔ (قیوم ، صفحہ نمبر 133)
‏‎
کئی بار سیمی جیسی ماڈرن لڑکی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اوپر لعنت بھیج رہی ہے ۔ (قیوم، صفحہ نمبر 127)
‏‎
سنو سیمی تم ماڈرن لڑکی ہو تمہارے کٹے ہوئے بال ہیں، لباس چال ڈھال سب ماڈرن ہے تم نے آفتاب کی نقل میں اپنے آپ کو مشرقی کر لیا اردو سیکھ لی لیکن اندر سے تم liberated لڑکی ہو۔ (قیوم، صفحہ نمبر 107)
‏‎سیمی جیسی لڑکیاں کس قدر بے وقوف ہوتی ہیں جو پچھتاتیں نہیں ، عشق لاحاصل کی قلابازی کھا کر ۔
(قیوم ، صفحہ نمبر 101)
‏‎
ماڈرن لڑکی یہ بھید سمجھ گئی ہے کہ بھوک کا دکھلاوا مرد تک یہ پیغام پہنچاتاہے کہ اگر وہ کھانے پینے میں سرگرم ہے تو جنسی بھوک میں مرد سے کم نہ ہو گی ۔ وہ ایک سمبل سے سب کو سمجھا دیتی ہے اور اپنی بھوک کو نمایاں کرتے ہوئے آج کی لڑکی مرد کی بھوک میں برابر کی شریک ہونے کا وعدہ کرتی ہے ۔ (قیوم، صفحہ نمبر 38)
‏‎اس کو یاد کر رہے ہو ، مری ہوئی چھپکلی کو . . . یہ ماڈرن لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔(عابدہ، صفحہ نمبر 225)
‏‎یہ حرام کاری ہوتی ہے سیدھی . . . چاہے آپ تعلیم یافتہ لوگ اس کا کوئی اور نام رکھ لیں اچھا سا۔ (عابدہ، صفحہ نمبر221)
‏‎وہ کیسی تھی ؟ پتلونیں پہننے والی۔ (عابدہ، صفحہ نمبر 229)
‏‎جب وہ شہدی بدمعاش کسی اور کے لیے مر رہی تھی تو تم اس کے پاؤں کیوں گرم کرتے تھے ہاتھوں سے خواہ مخواہ۔
(عابدہ، صفحہ نمبر 230)
‏‎عورت ایسے نہیں کر سکتی ، یہ سارے مردوں کے چونچلے ہیں کرنے مرنے کی آزادی خود ہی ہتھیا لیتے ہیں ، دوہرے چسکوں کا مرد کی ذات کو شوق ہوتا ہے۔ (عابدہ، صفحہ نمبر 233)
‏‎تمہاری سیمی کو چپڑی اور دو دو کھانے کا شوق تھا __ یہ امیر زادیوں کے چونچلے ہیں۔
یہ ہیں وہ بنیادیں جو ‘‘حلال ” کی بنیادیں اٹھانے کے لیے استوار کی گئی ہیں اور ان کے لیے قیوم اور عابدہ مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں عورت کے لیے فرماں برداری ، جذباتی زندگی پر قابو پانا، والدین کےساتھ رہنا، وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن اس کے برخلاف اپنی مرضی پر چلنے والی عورتیں وہ مینڈکیاں ہیں جنہیں زکام ہو رہا ہے۔ وہ سگریٹ پیتی ہیں، کماؤ پوت ہیں، اپنے والدین کی مالی مدد بھی کرتی ہیں یا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ چھپکلیوں کی کٹی دموں کی طرح تڑپ رہی ہیں اور والدین سے دور شوہر تلاش کر رہی ہیں گویا مرضی کے شوہر یا کم از کم ایسے جن کے بارے میں وہ کچھ نہ کچھ جانتی ہوں۔ یہ جرم انہیں حرام بنانے کے لیے بہت ہیں۔
اس پر ہی بات ختم نہیں ہوتی اس میں فاطمہ جناح کالج سے لے کر وائی ڈبلیو سی اے کے ہوسٹل تک کی تمام لڑکیوں کو شریک کر لیا جاتا ہے۔ فاطمہ جناح کالج، میڈیکل کالج ہے جس کا مطلب ہے جو لڑکی یہاں سے فارغ ہو گی ضرور ملازمت کرے گی کیوں کہ وہ ڈاکٹر ہے اور ڈاکٹروں میں چند ایک کے سوا سبھی کام کرتی ہیں۔ وائی ڈبلیو سی اے میں وہ لڑکیاں قیام کرتی ہیں جو ملازتیں بھی کرتی ہیں ، گھر سے دور اکیلی رہتی ہیں، ماں باپ کی مالی مدد کرتی ہیں اور اپنا مستقبل بنانے کی جد و جہد بھی کرتی ہیں۔
تو دیکھیں ناول کا بڑا حدف یا نشانہ کس طبقے کی عورتیں ہیں اور کیوں ہیں ؟
اس لیے کہ وہ مالی خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور مالی خود مختاری کا مطلب ہے کہ وہ اپنے شوہر کے رحم و کرم پر نہیں رہیں گی۔ اور ان کی لگامیں کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہوں گی۔
لیکن اس تماشے کو کیا کہا جائے کہ جو خالص گھریلو ہے ۔ عابدہ اور روشن وہ جو اس تھیسس کے دائرے میں نہ رہتے ہوئے، مصنفہ کے ہاتھ سے نکل کر مرضی کے گل کھلا رہی ہیں اور اس پر انہیں کوئی ندامت نہیں ہے۔ روشن کسی احساسِ گناہ کے بغیر محبوب کے پاس جانے کا عزم رکھتی ہے۔ وہ قیوم کی منکوحہ ہے قیوم اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھتا یا رکھنے کی کوشش کرتا تو کیا وہ اسے روک سکتی تھی اگر چاہتی بھی تو؟
عابدہ شادی شدہ ہونے کے باوجود ہر رات بستر میں گھسنے اور مونگ پھلیاں کھانے آ رہی ہے۔ شاید مصنفہ کے نظر میں یہاں مونگ پھلیاں انگریزی کے محاورے والے پی نٹ ہیں، معمولی سرسری غلطی کے معنوں میں۔ عابدہ یہ کہتی بھی ہے، گناہ تو آدمی سے ہوتے رہتے ہیں بندہ بشرجو ہوا توبہ کر لے بس۔
مجموعی طور پہ ناول کہانیت یا پڑھنے کے اعتبار سے یقیناً دلچسپ ہے، نہ ہوتا تو اس کے اتنے ایڈیشن شائع ہی نہ ہوتے۔ لیکن تخلیقی، تکنیکی اور ادبی اعتبار سے اس پر بہت توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔
تاہم تانیثی اعتبار سے یہ یقیناً ایک خاصا گمراہ کن متعصب ناول ہے اور صرف مردانہ بالا دستی اور عمومی مذہبی توہمات کو ترجیح دیتا دکھائی دیتا ہے جس کے مطابق تعلیم یافتہ عورت کا مقدر تباہی ہوتا ہے ۔
ایک تعلیم یافتہ ماں کی تعلیم یافتہ بیٹی کے قلم سے نکلے یہ الفاظ قاری سمجھنے سے قاصر ہے لیکن ناول کی پراسرار فضا، جنسی ماحول کی گرم جوشی اور لذت اور جانی پہچانی جگہوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ بانو کے قلم کا زہر خوشی خوشی پی لیتا ہے ۔
شاید سب سے زیادہ اثر انگیز وہ گڈمڈ تصوفانہ اور مذہبی تڑکا ہے جس میں ملفو ف گھریلو عورت کو یہ رستہ دکھایا گیا ہے کہ ‘‘کچھ” کرنا بھی ہو تو کر لو لیکن کرنے والی یا والیوں میں دکھائی مت دو۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *