Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ماہم اور نانی اماں کے بیچ بھی ایک ماں پڑتی ہے
کچھ برسوں سے یہ چلن ہو چلا ہے کہ دنیا بھر میں کچھ دن مخصوص کیے جاتے ہیں کچھ ہستیوں کے نام اور اس دن خاص طور پہ ان کو یاد کیا جاتا ہے، تحفے دیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس شخص کا ہمارے دل میں کیا مقام ہے۔ آج کی دنیا کے بچوں کو یہ سب خوب بھاتا ہے۔
کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد
بے ہوشی سے پہلے ہم ضرور کہتے ہیں لو جی ہم جا رہے ہیں۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔ ( ہو سکتا ہے پچھلے جنم میں ہم ٹرک ڈرائیور رہے ہوں ) ۔ خیر اس دن بھی ان ڈائیلاگز کے بعد رات اندھیری ہو گئی اور بتیاں بجھ گئیں۔
ہوش آیا تو ہم ہسپتال کے کمرے میں بستر پر دراز تھے۔ آپریشن کی تکلیف تھی لیکن وہ تو ہونی ہی تھی۔ دوسرے دن سر راؤنڈ پر آئے تو کافی سیریس نظر آئے۔ اس دن معمول سے کچھ زیادہ بات کی۔
!خیال نہ کیتا کسے ساڈھا
پڑھی لکھی کام کرتی عورت کو دیکھ کر اس عورت کی آنکھ میں اترتا رشک اور حسرت ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جن کے اندر چھپی قابلیت، ذہانت اور خواہشات ایسے دفن کر دی جاتی ہیں جیسے پیدا ہوتے ہی لڑکی گڑھے میں پھینک دی جائے۔
عید قربان – سنت خلیل اللہ یا جنت میٹرو سروس
عید الضحی کے سلسلے میں دوستوں کی محفل تھی۔ جہاں ذکر تھا وطن عزیز میں عوام کے جوش وخروش کا اور قربانی کے لئے خریدے جانے والے جانوروں کا جن کی قیمت لاکھوں میں ادا کی جا رہی تھی۔ ہم یہ سب سن کر بہت حیران تھے کہ قربانی کا تصور تو بہت علامتی ہے اور بنیادی طور پہ خلیل اللہ کی اپنی اولاد سے محبت اور خالق کی اطاعت کا مظہر ہے۔
!ہیرے کی انگوٹھی
شباب تک پہنچنے پہ ہماری زندگی میں کسی انگوٹھی کا عمل دخل نہیں تھا۔ ہاں سب رسالے، ناول، افسانے بتاتے تھے کہ ہیروئن ہیرو کی دی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی پہن کر اپنے آپ کو ساتویں آسمان پہ محسوس کرتی ہے۔ ہماری اماں اور آپا کے پاس تو کوئی ایسی انگوٹھی تھی نہیں جسے پہن کر ہم ساتواں نہ سہی کوئی پہلے دوسرے آسمان کی زیارت کرتے۔
بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین
بزنس کلاس کا بورڈنگ ہاتھ میں پکڑ کر گردن تھوڑی سی تن گئی تھی اور ہم باقی سب مسافروں کو نخوت سے دیکھ رہے تھے۔ سکیورٹی سے گزرنے لگے تو اس نے کہا آپ کے ذمے کچھ قرض واجب الادا ہے، پہلے وہ تو ادا کر دیجیے۔ ہائیں بھیا کب قرض لیا ہم نے تم سے؟ قرض۔ مطلب ٹریفک چالان۔ بیڑا غرق ہو ہمارے دائیں پاؤں کا۔ جب ایکسلیٹر سے گلے ملتا ہے تو ایسی گھٹ کے جپھی ڈالتا ہے کہ گاڑی ایک سو چالیس پہ دوڑنے لگتی ہے۔ ایک سو پینتیس کی سپیڈ پہ سڑک پہ لگے کیمرے کو آپ خوبصورت لگنے لگتے ہیں اور وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لیتا ہے۔ ایک تصویر کی قیمت ہے دس ریال یعنی مبلغ ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے۔ اس بار ہماری دو تصویریں کھنچی تھیں سو بیس ریال ادا کیے اور ہمارا قرض ادا ہوا۔