اندلس اجنبی نہیں تھا – چوتھی قسط
جہاز سے باہر نکلے تو وہی سب کچھ تھا جو ائرپورٹ پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سکیورٹی، وہیل چئیرز، بیگج بیلٹس، ادھر سے ادھر بھاگتے مسافر، کچھ کو اگلا جہاز چھوٹنے کی فکر، کچھ امیگریشن سے خوفزدہ۔ کچھ دیر تو سائن بورڈز کے سہارے چلے پھر سوچا پوچھ ہی لوں کہ کس اوکھلی میں سر دینا ہے؟ ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے، بی بی اگلے جہاز میں گھسنے سے پہلے امیگریشن کے حساب کتاب سے تو گزرو۔ امیگریشن ہمیشہ پل صراط کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ یہ درشت چہرے والا کوتوال جو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیے سوال جواب کیے جاتا ہے ، جانے داخلے کی مہر لگائے گا یا واپسی کی راہ دکھائے گا۔ ہم تو عادی مجرم ہیں زمانوں سے سو لگ گئے لائن میں۔