اندلس اجنبی نہیں تھا - چوتھی قسط
|

اندلس اجنبی نہیں تھا – چوتھی قسط

جہاز سے باہر نکلے تو وہی سب کچھ تھا جو ائرپورٹ پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سکیورٹی، وہیل چئیرز، بیگج بیلٹس، ادھر سے ادھر بھاگتے مسافر، کچھ کو اگلا جہاز چھوٹنے کی فکر، کچھ امیگریشن سے خوفزدہ۔ کچھ دیر تو سائن بورڈز کے سہارے چلے پھر سوچا پوچھ ہی لوں کہ کس اوکھلی میں سر دینا ہے؟ ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے، بی بی اگلے جہاز میں گھسنے سے پہلے امیگریشن کے حساب کتاب سے تو گزرو۔ امیگریشن ہمیشہ پل صراط کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ یہ درشت چہرے والا کوتوال جو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیے سوال جواب کیے جاتا ہے ، جانے داخلے کی مہر لگائے گا یا واپسی کی راہ دکھائے گا۔ ہم تو عادی مجرم ہیں زمانوں سے سو لگ گئے لائن میں۔

بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین
|

بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین

بزنس کلاس کا بورڈنگ ہاتھ میں پکڑ کر گردن تھوڑی سی تن گئی تھی اور ہم باقی سب مسافروں کو نخوت سے دیکھ رہے تھے۔ سکیورٹی سے گزرنے لگے تو اس نے کہا آپ کے ذمے کچھ قرض واجب الادا ہے، پہلے وہ تو ادا کر دیجیے۔ ہائیں بھیا کب قرض لیا ہم نے تم سے؟ قرض۔ مطلب ٹریفک چالان۔ بیڑا غرق ہو ہمارے دائیں پاؤں کا۔ جب ایکسلیٹر سے گلے ملتا ہے تو ایسی گھٹ کے جپھی ڈالتا ہے کہ گاڑی ایک سو چالیس پہ دوڑنے لگتی ہے۔ ایک سو پینتیس کی سپیڈ پہ سڑک پہ لگے کیمرے کو آپ خوبصورت لگنے لگتے ہیں اور وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لیتا ہے۔ ایک تصویر کی قیمت ہے دس ریال یعنی مبلغ ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے۔ اس بار ہماری دو تصویریں کھنچی تھیں سو بیس ریال ادا کیے اور ہمارا قرض ادا ہوا۔

اندلس اجنبی نہیں تھا - حصہ دوم
|

اندلس اجنبی نہیں تھا – حصہ دوم

تیس اگست تھی نزدیک تر اور ہمیں بس اتنا ہی علم تھا کہ تیس کو ہماری سواری باد بہاری نے چلنا ہے۔ اس سے آگے۔ کچھ خبر نہیں۔ وہ جو لکھا ہوتا ہے نا بسوں اور رکشے پر۔ جانے یا علی۔ تو بس وہی ورد ہمارے پاس بھی تھا جانے یا علی۔ پیکنگ کرنے میں ہم انتہائی پھوہڑ ہیں۔ سوٹ کیس نکلوا کر دس دن پہلے رکھ چھوڑتے ہیں پھر الماری کھولتے ہیں۔ کون سے کپڑے لے کر جاؤں؟ شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ؟

سفر کی مشکلات اور سپین کا ویزا
|

سفر کی مشکلات اور سپین کا ویزا

چچا سام نہیں، چچا لفتھانسا! چچا لفتھانسا کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑھیا کو کچا چبا جائیں۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ دن مہینے گزرتے چلے جا رہے ہیں اور بڑی بی کے مزاج ہی نہیں ملتے کہ معاملہ ختم کریں۔ چچا کی بڑبڑاہٹ ہم تک پہنچ رہی تھی ان خطوں کے ذریعے جو ہر دوسرے دن کمپیوٹر کے لیٹر بکس میں پائے جاتے تھے۔ جب کسی بھی طرح ہم نے کان نہ دھرا تو وارننگ کا خط آ گیا کہ بس بی بی بس۔ اب ہم کھاتہ بند کیے دے رہے ہیں، تم آرام سے گھر بیٹھو!

|

ہمارے زمینی پڑاؤ کی جھلکیاں – وٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ میں

یہ میوزیم ان آرٹسٹوں کا کام نمائش پہ لگاتا ہے جو ابھی اس دنیا میں موجود ہیں اور بے رحم زندگی کا گلہ لے کے چپ چاپ اگلے جہان نہیں چلے گئے

یہ آئیڈیا سوچا ایک خاتون مجسمہ ساز گرٹروڈ وینڈربلٹ وٹنی نے انیس سو سات میں، جب اس نے محسوس کیا کہ نئے فنکار اپنا کام پیش کرنے اور بیچنے میں ناکام رہتے ہیں۔

انیس سو چودہ میں گرٹروڈ نے وٹنی سٹوڈیو کے نام سے نئے فنکاروں کے کام کی نمائش کرنا شروع کی جو بہت بڑی مستند جگہوں پہ قبول نہیں کیا گیا تھا۔