صدیق عالم؛ زندگی  اور موت کی پیشگوئی کرنے والا کہانی کار

صدیق عالم؛ زندگی  اور موت کی پیشگوئی کرنے والا کہانی کار

کہانی کا آغاز اگر اس جملے سے ہو کہ مجھے ایک خط ملا جس میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ ایک ماہ بعد میری موت واقع ہو جائے گی تو بتائیے آپ کہانی پڑھنے کی خواہش کریں گے یا بیزاری سے کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے کہیں گے کیا بے سروپا بات ہے؟ 
مگر کیا کیجئے کہ ہمیں تو اس ایک جملے نے کسی ہشت پا کی طرح جکڑ لیا اور ہمارے پاس یہ گنجائش ہی نہ رہی کہ کسی اور طرف دیکھ سکیں۔
کہانی دو کرداروں کے گر گھومتی ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے چہرہ شناسا یوں ہیں کہ ایک ہی جگہ سے بار بار گزر رہے ہیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے۔ کچی بستی کے محلے ، درمیان میں بہتا نالہ،نالے سے نکلتاکھال ، کھال کے اوپر بنا پل اور پل کے ایک طرف بنابکرا ہاٹ۔
اسی طرح جیسے زندگی نامی فلم میں لاکھوں لوگ ملتے ہیں لیکن سب ایک دوسرے کو جانتے نہیں ، لیکن انہیں ایک دوسرے کا ہیولہ یاد رہ جاتا ہے۔
پہلا کردار تیس برس کا ایک شخص ہے۔   ایک کھولی نما کمرے میں رہنے والا، شیشوں کی ایک چھوٹی فیکٹری سے روزگار کمانے والا ، دو بچوں کا باپ،زندگی کو ہر دن آخری دن سمجھ کر  برتنے والا۔ زندگی اور موت اس کے لئے سانپ سیڑھی کا کھیل کیسے بنتا ہے ، کیسے وہ بار بار اوندھے منہ گرتا ہے، کھڑے ہونے کی کوشش میں معمے کے گم شده ٹکڑے تلاش کرنے کی آرزو کس طرح اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے، کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے، زندگی کی بند گلی میں ٹکراتے ہوئے کن منزلوں سے گزرتا ہے،  یہ دکھانے کے لئے اس کی عمر کے دس مہینوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔  
دوسرا کردار امید علی ایک بوڑھا شخص ہے، اسرار کے پردے میں لپٹاہوا، بظاہر وہ بانسریاں فروخت کرتا ہے، لیکن ٹھگ ہے یا منشیات فروش، کوئی نہیں جانتا۔ 
کہانی کے سپورٹنگ کرداروں میں بنیادی کردار جس کا نام تو ہمیں معلوم نہیں ، چلیے اکرم فرض کیے لیتے ہیں کی بیوی ، شیشہ فیکٹری کا مالک، امید علی کا بیٹا اور بیڑی فیکڑی کا مینیجر شامل ہیں۔  
کہانی کا آغاز امید علی کے اس خط سے ہوتا ہے جو اکرم کو اس کی موت کی خبر دینے کے لئے لکھا گیا ہے جو اسی ماہ متوقع ہے۔ 
اکرم حیران ہے کہ امید علی کو اسکی موت کی خبر کس نے دی؟ اسے یہ  پیش گوئی کرنے کا خیال کیسے آیا؟ اس نے یہ خط کیوں لکھا؟ کیا پل کے حوالے سے دو اجنبیوں میں قائم ہونے والے تعلق میں احساس کی اس قدر قربت تھی کہ خط و کتابت کا سوچا جاتا؟ کیا امید علی، اکرم کو کسی ناگہانی سے بچانا چاہتا تھا لیکن پھر وہی سوال منہ کھولے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ کیوں ، کیسے؟ 
اکرم امید علی سے مل کر یہ سب پوچھنا چاہتا ہے۔ وہ امید علی کی تلاش میں نکلتا ہے, ان سب جگہوں پر جاتا ہے جہاں وہ اسے ماضی میں دیکھتا رہا ہے، بے شمار لوگوں سے پوچھتا ہے  لیکن کچھ علم نہیں ہو پاتا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اس خط کو بے معنی سمجھ لیتا ہے، کسی دیوانے کی اختراع لیکن اسے پھینک نہیں پاتا۔ گھر کے اکلوتے کمرے میں چارپائی کے نیچے رکھے ایک پرانے ٹرنک میں ڈال کر بند کر دیتا ہے۔ 
اکرم مناظر فطرت دیکھنے کا شوقین ہے اور اکثر پل پہ جا کر ڈوبتے ہوئے سورج اور طلوع ہوتے چاند کو پہروں تکتا رہتا ہے۔ ایک رات اسی طرح وہ ستارے دیکھنے میں مگن ہے، ایک تیز رفتار ٹیکسی اسے روند کر چلی جاتی ہے 
*
تین چار ماہ ہسپتال میں گزارنے کے بعد وہ ٹانگوں سے معذور ہو کر گھر لوٹتا ہے۔  اب زندگی ایک اور شکل میں اس کے سامنے آتی ہے۔  اب وہ محتاج ہو چکا ہے۔ معذوری کا صدمہ ابھی کم نہیں ہوا کہ نوکری بھی چلی جاتی ہے۔  فیکٹری کا مالک ہمدرد انسان تو ہے لیکن کام پہ رکھنے سے معذرت کر لیتا ہے کہ ایک معذور شخص شیشوں کو کیسے سنبھال پائے گا؟ اب بھوک ایک عفریت بن کر آ کھڑی ہوتی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے آٹھ جماعت پاس بیوی کو ایک معمولی نوکری کرنی پڑ جاتی ہے۔  
زندگی میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لئے اسے سہارا چاہئے۔  مقامی سیاست دان سے وہ معذوروں کے لئے ہاتھ سے چلنے والی سائیکل حاصل کر لیتا ہے۔ سائیکل چلانے میں کچھ محنت کے بعد وہ مہارت حاصل کر لیتا ہے۔
اب وہ مایوسی کے گرداب میں پھنسا یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ اسی اثنا میں اسے وہ پراسرار خط پھر یاد آتا ہے اور ساتھ ہی امید علی بھی، جس نے اس کی موت کی خبر اسے دی تھی۔ وہ امید علی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے نوجوان بیٹے مکرم تک جا پہنچتا ہے۔  جو امید علی کی طرح بانسری بجا کر بانسریاں فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بانسری کی آواز سے اس کا اناڑی پن ظاہر  ہے۔ مکرم اسے بتاتا ہے کہ امید علی کو ملنے کے لئے اسے گھر جانا پڑے گا۔ وہ اگلے دن اس کے گھر جانے کا ارادہ باندھتا ہے لیکن جا نہیں سکتا کہ اسے ہاتھ سے بیڑی بنانے کا کام ملنے کا سندیسہ آ جاتا ہے۔ 
اب وہ گھر رہ کر بیڑی بناتا ہے اور ہفتے کے ہفتے فیکٹری پہنچا کر مزدوری لیتا ہے۔ جلد ہی اس کے ہاتھ بیڑی بنانے  طاق ہو جاتے ہیں اور بیڑی مینیجر اس بات کی تعریف بھی کرتا ہے۔ زندگی ایک ڈھب پہ چل نکلی ہے، بیوی خوش ہے کہ وہ معذوری کے باوجود کام کرنے میں مصروف ہے۔ خط اور امید علی کا خیال اب اُس کے ذہن سے محو ہو چکا ہے۔
اس سکون میں خلل تب آتا ہے، جب ایک دن گھر میں چوری ہوتی ہے اور چور خط والا ٹرنک  لے جاتے ہیں ۔ 
خط کے چوری ہو جانے کو وہ لاشعوری طور پر برا شگون سمجھتا ہے۔  اندر کا خوف اسے ڈرانا شروع کر دیتا ہے۔ عجیب و غریب واہمے ستاتے ہیں۔  دماغی انتشار اس کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا کرتا ہے۔  کانپتی ہوئی انگلیوں ٹھیک سے بیڑی نہیں لپیٹ پاتیں اور قینچی کا استعمال ہاتھ کے جوڑوں میں اس طرح کا درد کرتا ہے کہ وہ ٹھیک سے قینچی تھام نہیں پاتا۔ بینائی کچھ اس طرح سے متاثر ہوتی ہے کہ ہر چیز دھندلی پڑ جاتی ہے، سورج بھی گدلا جاتا ہے اگر چہ ماہر امراض چشم آنکھوں میں کوئی نقص تلاش نہیں کر پاتا۔ 
بیڑی بنانے کا کام ٹھپ ہو جاتاہے۔ بیوی سمجھتی ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے، کہ اسے آرام کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ بچے بھی گریزاں نظر آتے ہیں 
اب اسے کبھی کانوں میں آوازیں سنائی دیتی ہیں، بے شمار لوگوں کے چیخنے کی آوازیں۔ اور کبھی سائیکل کا ہارن تک نہیں سنائی دیتا اور وہ گھنٹی کو اس کوشش میں بار بار مروڑتا ہے۔ بکرا ہاٹ کی بو جو اس کے محلے سے بہت دور ہے اور صرف پل کے پار ہاٹ کے اردگرد  رہنے والوں کو ہی سونگھنے کو ملتی تھی اب اکثر و بیشتر اسے اپنے گھر میں  محسوس ہونے لگتی ہے۔
اپنے جسم پر جگہ جگہ اسے چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ بار بار جھٹک نے کوشش کرتا ہے اور بچے اس فاتر الداماغ سمجھ کر ہنستے اور اشارے کرتے ہیں ۔
اب اسے خط پھر یاد آ جاتا ہے اور امید علی بھی۔  وہ پھر سے اس کے بیٹے کی تلاش میں نکلتا ہے اور کئی جگہوں پر مارا مارا پھرتا ہے۔

Similar Posts