واہ استاد مارکیز ، تم تو اپنے نکلے!

!واہ استاد مارکیز ، تم تو اپنے نکلے

واہ استاد مارکیز ، تم تو اپنے نکلے ! 
 
شام کا وقت ، تنہائی ، ہاتھ میں کافی کا مگ اور کہانیوں کی کتاب پڑھتے ہوئے اگر ہم بے اختیار اچھل پڑیں تو ارد گرد والے یقیننا سوچیں گے کہ بڑھیا کا دماغ چل گیا ! 
 
اور ہم زور زور سے ہنستے ہوئے کہیں گے … واہ استاد مارکیز کیا تمہیں الہام ہوا تھا کہ ویجائنل لاک کا انکشاف ہمیں کیسارسوا کرے گا سو تم پہلے سے ہی اس کا انتظام کر گئے ۔ 
کہاں ساؤتھ امریکہ کا نوبیل انعام یافتہ ادیب اور کہاں پاکستان کی یہ لکھاری … گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں ؟ 
 
صاحب فکشن اور نان فکشن کے بیچ کھچی لکیر اس قدر نادیدہ اور باریک ہے کہ زندگی کے تلخ سچ کو اسے پار کرکے کہانی بننے میں کچھ دیر نہیں لگتی ۔ 
آخر کہانی ہے کیا ؟ 
زندگی کا اصل روپ __ جس کی بدصورتی کی لوگ تاب نہ لا سکیں اور کہانی کو ایک ایسے لبادہ اوڑھا کر پیش کریں جس میں جگہ جگہ ہوئے چھید آپ ہی آپ راز افشا کرتے جائیں کہ کہانی نے کیسے اور کہاں جنم لیا ؟ 
لیکن نان فکشن کے کریہہ سچ سے منہ چھپانے والوں کو فکشن کا شوگر کوٹٹڈ سچ نگلنا اور سچائی سے منہ موڑ لینا کہانی کو قہقہہ لگانے پہ مجبور کرتاہے ۔
 
آج گیبریل گارسیا مارکیز کی دسویں برسی ہے ۔ اور ان کے جادوئی قلم کا گیت گانے کے لیے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ ان کی کہانی دہرا کر سر دھنا جائے۔ 
 
کہانی کا نام ہے ، محبت کے اس پار منتظر موت ، مترجم ہیں راشدمفتی ! 
کہانی ایک سینیٹر کے گرد گھومتی ہے جو الیکشن کمپین پہ ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچا ہوا ہے ۔ ہر الیکشن سے پہلے کی جانے والی یہ مہم ماضی سے قطعی مختلف نہیں۔ وہی جھوٹے وعدے ، زندگی بدلنے کے خواب ، ووٹ کی اہمیت اور سیدھے سادے لوگوں کا سیاستدانوں پر یقین … کہ بس اس بار تو کچھ نہ کچھ ضرور بدلے گا ۔
 
سینیٹر یہ سب کچھ برسوں سے کر رہا ہے لیکن اس بار کچھ مختلف ہے ۔ سینیٹر کو کوئی جاں لیوابیماری ہے اور ڈاکٹر اسے بتا چکا ہے کہ اس کی زندگی میں چھ ماہ اور گیارہ دن بچے ہیں ۔ وہ ان دنوں کو بھی ویسے ہی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے جیسے ابھی تک گزار رہا ہے۔ 
 
کہانی کا دوسرا کردار ایک بوڑھا شخص ہے جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتا ہے ۔ ایک بیوی کو قتل کرکے جسم کے ٹکڑے زمین میں گاڑ چکا ہے ۔ بوڑھے کی خواہش ہے کہ سینیٹر اسکے مجرمانہ ریکارڈ کو تبدیل کروا دے ۔ وہ کئی برسوں سے اس خواہش کا سینیٹر سے اظہار کر رہا ہے ۔ 
 
کہانی کا تیسرا کردار ایک انیس برس کی لڑکی ہے جو بوڑھے کی بیٹی ہے ۔ بے انتہا حسین ۔ 
 
سینیٹر تقریر سے فارغ ہو کر گھر گھر پہنچ کر لوگوں سے مل رہا ہے ۔ بوڑھے کے گھر پہنچنے پر لڑکی کو دیکھتا ہے اور بے اختیار اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔کائیاں بوڑھا بھانپ جاتا ہے کہ سینیٹر کو اس کی بیٹی پسند آ گئی ہے ۔
 
شام میں وہ اپنی بیٹی کو بنا سنوار کر سینیٹر کے پاس بھیجتا ہے ۔سینیٹر جانتا ہے کہ وہ موت سے صرف چھ ماہ گیارہ دن دور ہے لیکن وہ لڑکی کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے اور یہ محض جنسی خواہش نہیں ہے ۔ اس کے دل میں محبت کا گلاب کھل چکا ہے اور اسے چھ ماہ گیارہ دن کے بعد لڑکی کے بغیر مرنے کا غم ستا رہا ہے ۔ 
 
“ اس نے سکون کی خاطر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اندھیرے میں اپنے آپ سے ملا ۔ یاد رکھو چاہے تم ہو یا کوئی اور اس میں زیادہ دیر نہیں ہے کہ تم فنا ہو جاؤ گے اور اس میں بھی زیادہ دیر نہیں ہے کہ تمہارا نام بھی باقی نہیں رہے گا “ 
 
تنہائی ، بیماری ، موت اور محبت سے الجھتے اس شخص کی کہانی کا اختتام تو آپ خود پڑھیے گا لیکن ہم آپ کو وہ سنائے دیتے ہیں جس سے ہم بے اختیار یہ مضمون لکھنے پہ مجبور ہوئے ۔ 
 
اس نے روشنی گل کر دی اور کمرہ گلاب کے سائے میں آ گیا ۔ سینیٹر ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں سے نرمی کے ساتھ اس کا بدن سہلانے لگا لیکن جہاں اسے اس کی نسوانیت پانے کی توقع تھی وہاں کوئی سخت سی چیز اس کی راہ میں حائل تھی ۔ 

ارے یہ کیا ہے ؟ 
تالا ، لڑکی نے بتایا ۔
لعنت ہو ، سینیٹر نے مشتعل ہو کر کہا اور وہ سوال کیا جس کا جواب وہ اچھی طرح جانتا تھا ، چابی کہاں ہے ؟ 
لورا فارینا نے سکون کا سانس لیا۔ 
میرے ابا کے پاس ، اس نے جواب دیا ، انہوں نے کہا ہے کہ آپ چابی کے لیے اپنا آدمی بھیج دیں اور اس کے ساتھ یہ تحریری پیغام بھی کہ آپ ان کا مسلہ حل کر سکتے ہیں ۔ 
سینیٹر کا پارہ چڑھ گیا ، حرامی مینڈک ، وہ برہمی سے بڑبڑایا ۔ 
 
کچھ عرصہ پہلے ہم نے ویجائنل تالے کا ذکر کیا تھا جو مختلف ڈاکٹرز اور نرسوں نے ان مریض عورتوں کی ویجائنا پہ لگا دیکھا تھا جو علاج کے لیے ہسپتال آئی تھیں اور چابی باہر بیٹھے شوہر کے پاس تھی ۔ یہ پڑھ کر ہزاروں مردوں نے برافروختہ ہو کر ہم پہ چڑھائی کر دی تھی کہ ہم نہ جانے کہاں سے کہانیاں گھڑتے ہیں ؟

گو کہ وہ واقعہ کہانی نہیں تھا لیکن یہ بھی جان لیجیے کہ ہر کہانی کے پیچھے کسی نہ کسی حقیقت کا وجود ہوتاہے ۔ ہمیں حیرت اس لیے زیادہ ہوئی کہ ہماری نظر سے تو یہ کہانی نہیں گزری تھی مگر مارکیز کے بے شمار چاہنے والوں نے بھی اس کہانی کا ذکر نہیں کیا ۔ انگریزی ترجمے کو تو چھوڑیے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اجمل کمال کے ادارے سے چھپنے والا یہ اردو ترجمہ کسی ادب پسند قاری تک پہنچا ہی نہ ہو ۔ شاید بہت سوں نے مصلحتا دم سادھ لینا مناسب سمجھا تھا ۔ 
 
ساؤتھ امریکہ میں رہنے والا ادیب ویجائنل تالے اور اس کے استعمال کو لکھ کر اپنی کہانی کو اثر انگیز تو بناتا ہی ہے لیکن بہت دور تیسری دنیا میں رہنے والی ایک چھوٹی سی لکھاری کو بھی تھپکی دیتا ہے کہ انہونی کو اپنے لکھے میں ضرور شامل کرو چاہے

فکشن ہو یا نان فکشن ۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *