کیا ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے

کیا ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے ؟

ہمارے پروفیسر ڈاکٹر عطااللہ خان کہا کرتے تھے کہ اگر کسی ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی نہیں آتی تو اسے کسی عورت کی زچگی کی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہئے۔ یہ زندگی بچانے والا آپریشن ہے اور بدقسمتی سے چھوٹے شہروں میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر اتنے تجربہ کار نہیں__ وہ سیزیرین تو کر سکتے ہیں لیکن سیزیرین ہسٹرکٹمی اس سے بہت آگے کا آپریشن ہے ۔

ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟
|

ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟

دیکھو اس میں وقت قیمتی ہے۔ ماں کے جسم کے اندر خطرناک بیماری ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بچے کو اس کے جسم سے نکال لیا جائے۔ بچے کے نکلتے ہی ہیلپ سنڈروم اپنے آپ ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گا اور ماں صحت یابی کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ سو کرنا یہ ہے کہ حساب لگاؤ جلد از جلد کیسے بچہ ڈیلیور کروا سکتے ہو؟ اگر درد نہیں تو مصنوعی درد شروع کروانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے۔ سو ماں کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے ۔

!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے
|

!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے

سن کر کانوں سے دھواں نکلنے لگا، اوہ خدایا جن باتوں کی ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یک دم مجسم ہو کر سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ویجائنل ڈلیوری میں مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ سلطان کا پہلا ریسرچ پیپر 1993 میں چھپا اور ہماری ویجائنل ڈلیوری بھی اسی برس ہوئی۔ ہائے ٹوٹی کہاں کمند۔ سلطان نے پچھلے تیس برس میں مقعد اور ویجائنل ڈلیوری پر سو سے اوپر ریسرچ پیپرز لکھ ڈالے ہیں، کتابیں چھپ چکی ہے، سی ڈی دستیاب ہے، دنیا بھر سے ٹرینیز ان کی ورکشاپ اٹینڈ کرتے ہیں غرض سلطان مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ بات کرنے کی اتھارٹی ہیں۔

آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟
|

آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟

دو ہزار ایک کا راولپنڈی۔ ہماری اور شوہر کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی۔ نشتر ہسپتال سے سپیشلائزیشن کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد اب ہمیں امتحان دینا تھا۔ احمد نگر چٹھہ کے ہیلتھ سینٹر پہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پڑھائی میں بھی مصروف تھے۔ دوسرا بچہ بھی انہی دنوں پیدا کیا تھا۔ سپیشلائزیشن کے امتحان کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا تحریری دوسرا زبانی۔ اگر تحریری پاس کر لیا جائے تو زبانی کا موقع ملتا ہے جس میں اصل مریض بلائے جاتے ہیں۔ مریض کا معائنہ ممتحن کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور پھر مریض کے متعلق سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔

!میں کیوں زندہ رہوں؟ بائیس سالہ زچہ کا سوال
|

!میں کیوں زندہ رہوں؟ بائیس سالہ زچہ کا سوال

لاہور جنرل ہسپتال میں ایک بائیس برس کی لڑکی نے تیسری منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی کہ اس کے ہاں تیسری بچی کی ولادت ہوئی ہے۔ بائیس برس اور تیسری بچی۔ سوچیے کس عمر میں شادی ہوئی ہو گی؟ سولہ یا سترہ؟ بلوغت کا عرصہ ختم ہونے سے پہلے؟ زندگی کو برتنا سیکھنے سے پہلے۔ اٹھارہ میں ماں بنا دیا ہو گا شوہر نے۔ وہ جس کی اپنی ہڑک ختم نہیں ہوئی ماں کی گود کی گرمی میں منہ چھپانے کی، اسے اپنی گود میں ایک اپنے جیسی کو چھپانا پڑا ہو گا۔ زندگی یوں خراج لیتی ہے لڑکیوں سے۔ انیس بیس میں گود میں ایک اور بچی اور اب بائیس عمر میں تیسری بچی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک طوفان۔

ہم نے کیوی کپ لگانا اس کے موجد سے سیکھا ہے
|

ہم نے کیوی کپ لگانا اس کے موجد سے سیکھا ہے

گائناکالوجی کی دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس تھی اور بھانت بھانت کے گائناکالوجسٹ موجود تھے۔ پاکستان سے نامی گرامی پروفیسرز کے ساتھ بہت سے پرانے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ سارا دن ہنسی کھیل کے ساتھ ساتھ نئی ریسرچ، انوکھی دریافت اور نئے آئیڈیاز پر بات ہوتی۔ بہت کچھ تھا سیکھنے اور سکھانے کو۔ ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم بھی سب دیکھا کیے۔

!اناڑی سے بچیں
|

!اناڑی سے بچیں

ایسے جنرل سرجنز کی کمی نہیں جو باآواز بلند قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی عورتوں کی بچہ دانیوں کے طفیل چل رہی ہے۔ کیا اپنی روزی روٹی چلانے والے یہ بات جانتے ہیں کہ عورتوں کی بچے دانی اور بیضہ دانی سوچے سمجھے بغیر نکال دینا ان کی زندگی سے کھیلنا ہے؟

کیوی - جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا
|

کیوی – جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا

اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کر دیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔

لیبر روم میں ایک کیوی ہے
|

لیبر روم میں ایک کیوی ہے

خیر آخر میں کیوی کی مدد لینا پڑی۔ کیوی کی کہانی بھی زنبیل میں ہے لیکن ابھی نہیں۔ بس اتنا جان لیجیے کہ بچپن میں جو اشتہار دیکھتے تھے ناں، ’پیارے بچوں، کیوی کیا ہے؟ کیوی ایک پرندہ ہے‘ ۔ لیبر روم اور آپریشن تھیٹر میں ایک کیوی ہے تو سہی مگر لیکن وہ پرندہ نہیں۔