Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
گائنی فیمنزم: ماہواری کے پیڈز معاشرے کے لیے باعث شرم کیوں؟
اکیسویں صدی میں وہ وقت آ گیا ہے جب گائنی فیمینزم کی طاقت اور شعور عورت کو اس بوجھ سے نجات دلائے۔ اب اسے چھپ چھپ کر زندگی بتانے کی بجائے زندگی کے ہر میدان میں سر اٹھا کر کھڑی ہونا ہے، بلا جھجک اپنے مسائل کا ذکر کرنا ہے، اپنی تکالیف کا حل ڈھونڈنا ہے، شرم و حیا کے غلیظ، مصنوعی اور جھوٹے غلاف کو اتار کر پھینکنا ہے۔ تاکہ اپنے آپ پر ناز کر سکے کائنات میں تخلیق کے جوہر کی مالک وہ ہے۔
ماہواری اور ٹرنر سنڈروم : زندگی کی نمو کا سوال
ماہواری نہ آنے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ کروموسومز سے جڑی ہے۔ کروموسومز ہر انسان کی جنیاتی کوڈنگ جو فیصلہ کرتی ہے کہ جنم لینے والے کی آنکھیں بھوری ہوں گی یا نیلی، شکل ننھیال پہ جائے گی یا ددھیال پہ، قدوقامت چچا پہ ہو گی یا ماموں پہ، حتی کہ عادات کا سرا بھی کسی ایسے پڑدادا یا پڑنانا سے جڑ سکتا ہے جن کی شکل تو دور کی بات ہے، نام تک نہ کا علم نہ ہو۔
!مینوپاز – ویجائنا میں شدید جلن کیوں ہے
ماہواری ختم ہونے کے بعد والی زندگی کو مینوپاز کہتے ہیں اور اس میں تمام ہارمونز اوپر سے نیچے ہو جاتے ہیں لیکن ایک ہارمون جس کی کمی خواتین کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ایسٹروجن ہے۔ ایسٹروجن کی کمی ویجائنا کی سب دیواروں کو خشک اور انتہائی پتلا بنا دیتی ہے۔ ہلکی سی ضرب سے خون نکلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کیفیت کو Atrophic Vaginitis ایٹروفک ویجینائٹس کہا جاتا ہے۔ ویجائنا کے بالکل پاس پیشاب کی نالی یعنی urethra بھی موجود ہے۔ یورتھرا کا حال بھی ویجائنا سے مختلف نہیں ہوتا سو جنسی تعلق تو عذاب بنتا ہی ہے، پیشاب کرنا بھی آسان نہیں رہتا۔ ایسے لگتا ہے کہ ویجائنا اور یورتھرا ایک زخم میں بدل چکے ہیں۔
!ماہواری کی ناہمواری; تالا کنڈا سب ٹھیک ہے
یہ جاننا دلچسپی کا امر ہے کہ تخلیق کے ابتدائی مراحل میں نطفے کے جنسی اعضاء ایک جیسے ہوتے ہیں بھلے کروموسومز یہ فیصلہ کر چکے ہوں کہ دنیا میں آنے والا مرد ہو گا کہ عورت!
ایک بنیادی عضو جنیٹک کوڈنگ اور ہارمونز کے اثرات کے تحت مختلف مراحل سے گزرتا ہوا وہ بناتا ہے جو کسی کو عورت کی شناخت بخشتا ہے، کسی کو مرد اور کسی کو وہ، جس کو معاشرہ قبول ہی نہیں کرتا۔
اگر ڈاکٹر آپریشن کے بعد بتا دیتی آنت کٹ گئی ہے تو ہم 21 دن انتظار نہ کرتے
دیہی علاقوں میں کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں کے عام انسان کی زندگی کیڑے مکوڑوں کی طرح پائی جنہیں کوئی بھی کبھی بھی مسل دیتا ہے۔ حکومتی سطح پر ان لوگوں کے لیے چھوٹے موٹے اسپتال بنا کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ ذمہ داری ختم ہوئی۔ تب چاندی ہوتی ہے ان لوگوں کی جو وہاں پرائیویٹ اسپتال کھول کر دھندا کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے لیکن ڈاکٹر بھی اس بھیانک نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری کے بعد پرائیویٹ اسپتال چلانا ایسا ہی ہے جیسے کسی بس ڈرائیور کو جہاز اڑانے کی اجازت دے دی جائے۔