Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ بارہویں قسط ;
ان ملاقاتوں میں امثال کی کوشش ہوتی کہ بوس وکنار کیا جائے جس پہ ثانیہ کبھی مزاحمت کرتی اور کبھی ہتھیار ڈال دیتی ۔ ڈراپ سین تب ہوا جب ایک دن چھت پہ نبیل نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور غصے میں پاگل ہو کر امثال سے گھتم گتھا ہو گیا۔ جب لڑتے لڑتے دونوں تھک گئے تو امثال نے نبیل کو بتایا کہ اس سب میں ثانیہ کا کوئی دوش نہیں وہی ثانیہ سے محبت کرنے لگا ہے ۔ لیکن اب وہ وعدہ کرتا ہے کہ نبیل کے گھر آنا چھوڑ دے گا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! سولہویں قسط
بھابھی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عام سی عورت جو مرد اور عورت کے تعلق کو روایتی عینک سے دیکھتی ہے ۔ کم از کم بانو نے اسے یہی روپ عطا کیا ہے لیکن بیچ بیچ میں بھابھی کا کردار بانو کے قلم کی نہ مانتے ہوئے خودسری پہ اتر آتا ہے۔ بانو ناول کی سچوئشن بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ بھابھی کا underplay بھانپ ہی نہیں پاتیں۔آئیے دیکھتے ہیں کیسے ؟
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! دسویں قسط
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پندرہویں قسط ;
امریکہ جانے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے میں ثانیہ نہ جانے کتنی بار مری اور کتنی بار زندہ ہوئی مگر آخر کار اس نے مطلوبہ رقم جمع کر ہی لی۔ وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔ لیکن اس بار اس نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر جلاد کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رسی کا وہ پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط
مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔