ذلتوں کے اسیر پانچویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پانچویں قسط

نبیل کا مذہب کی طرف رحجان اسے فیملی پلاننگ کی نوکری خلاف شرع اور حرام سمجھنے پر اکساتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ شرع کا حوالہ نبیل کے لئے ایک ایسا ہتھیار ہے جو نبیل جہاں چاہے  استعمال کرلیتا ہے اور جہاں  چاہے اس کو بھول جاتا ہے۔ ان حالات میں شادی کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ نبیل کے ہوائی قلعے، جھوٹی انا، مذہبی رحجانات اور اپنی پسند کی گردان نے اس عشق کے غبارے سے فورا ہی ہوا نکال دی ۔
شادی کے کچھ عرصے بعد ہی علم ہوجاتا ہے کہ گھر میں خاک اڑ رہی ہے۔ ثانیہ فاقے کرنے پر مجبور ہے اور نبیل اپنی پسند کی عورت گھر لانے کے بعد بے نیاز ہو کر شعر و شاعری کی محفلوں میں پھر سے گم ہو چکا ہے۔ وہی طور طریقے جو شادی سے پہلے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ شاعر کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے غفلت اس کی سہل پسند فطرت کی عکس ہے اور یہاں شاعر کی شاعری پر سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
بات فاقوں تک ہی محدود نہیں رہتی۔  نبیل کی ثانیہ کی طرف توجہ روز بروز کم ہو رہی ہے۔ ثانیہ احتجاج کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی حتی کہ نبیل کے دوستوں کے سامنے بھی ہاتھا پائی کی نوبت آ جاتی ہے۔
غربت، بھوک اور تنہائی ثانیہ کو پاگل کر رہی  ہیں۔ ثانیہ اس تکون سے نکلنے کے لئے کام کرنے کا فیصلہ کرتی ہے جس پر نبیل قطعی کوئی اعتراض نہیں کرتا بلکہ گھر میں ثانیہ کے پیسوں سے آئی خوشحالی سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی لے آتا ہے۔ ثانیہ نہ صرف گھر کا خرچہ اٹھاتی ہے بلکہ نبیل اور اس کے بھائی کو پیسے بھی دیتی ہے۔
یہاں پدرسری کا ایک اور بدصورت رنگ سامنے آتا ہے۔ پدرسری کے مطابق عورت کو ہر صورت مرد کے دست نگر رہنا ہے لیکن مرد اپنی کاہلی کی صورت میں آنکھیں بند کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ ایک عورت کے کندھوں پر بنا کسی ہچکچاہٹ کے ڈال سکتا ہے ۔ نہ کوئی شرمندگی، نہ ہی عزت نفس کا مسئلہ اور نہ ہی احساس کمتری، نہ انا کا تازیانہ اور نہ ہی مذہب کی آڑ۔
اس اثنا میں ثانیہ کے ماضی سے ایک اور پردہ اٹھتا ہے جب شرفو نامی بدمعاش اس کی تلاش میں نبیل کے گھر پہنچتا ہے اور ثانیہ کو اس کے حوالے کرنے کے لئے کہتا ہے۔ شرفو کے مطابق ثانیہ اس کے ساتھ ایک سال رہتی رہی ہے۔ شرفو نے گھر بار سب بنا کر دیا لیکن ثانیہ کے کہنے پر شادی سے انکار کرتا رہا جس پہ ثانیہ وہاں سے غائب ہو گئی۔ وہ نبیل اور اس کے دوستوں سے کہتا ہے:
” یہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن بھائی ایسی عورتوں سے شادی کون کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ جتنے پیسوں کی ضرورت ہو، لیتی رہو۔
تم لوگ اس عورت کو جانتے نہیں ہو۔ یہ کسی کی بیوی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ بیوی بن کر رہنے والی عورتوں میں سے نہیں ہے۔ وہ کسی ایک کی ہو کر نہیں رہ سکتی۔
تم اس عورت کو چھوڑ دو، میں خود ہی نمٹ لوں گا”
نبیل اس حقیقت کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں لیکن اُس کا دوست  سرور اکرام صورتِ حال کو سمجھ جاتا ہے اور  شرفو  کی منت سماجت کرتے ہوئے اسے ثانیہ کو معاف کرنے کا کہتا ہے۔
“اس عورت کو ایک اور موقع دے دیں ممکن ہے وہ اس طرح نیکی کی زندگی گزارنے لگے۔ اگر آپ کی وجہ سے ایک عورت گندگی کی دنیا سے نکل آئے تو کتنی بڑی بات ہو گی” ۔
ارے بھائی میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔
دیکھیے شرفو کا ماجرا، ایک عورت سے نہ شادی کرتا ہے اور نہ ہی اس کا گھر بسنے دیتا ہے۔ ثانیہ اس کے ساتھ شادی کے وعدے پر رہتی رہی اور پھر اس کی وعدہ خلافی کرنے کے بعد غائب ہوئی۔ شرفو کے لئے ثانیہ کی گھر بسانے کی یہ خواہش بے معنی ہے۔ وہ عورت کو محض بکاؤ مال سمجھتا ہے اور یہ بھی کہ ایسی عورتیں بیوی بننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔
یہاں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ معاشرے کے نزدیک کونسی خاص عورت  بیوی بننے کے قابل ہوتی ہے؟
ایسی عورت جس کے منہ میں نہ زبان ہو اور نہ کھوپڑی میں دماغ! نہ کوئی خواہش ہو اور نہ کوئی شوق!
ہر بات پہ سر کو جھکا کر آمنا و صدقنا کہے۔ جانتی ہی نہ ہو کہ بحث کس چڑیا کا نام ہے، اپنے حقوق سے بے نیاز ہو، فرائض کی فہرست ازبر یاد ہو، خدمت گزاری گھٹی میں پڑی ہو، ڈولی میں آ کر ڈولے میں نکلنے پہ ایمان رکھتی ہو۔ بچوں اور شوہر کے گرد پروانہ وار گھومتی ہو، سسرال کی جوتیاں سیدھی کرنے میں طاق ہو۔ سیدھی، بھولی بھالی، فرمانبردار، سگھڑ، بنی بنائی ڈپٹی نذیر احمد کی   معراۃ العروس کی جیتی جاگتی ہیروئن۔
دن گزرتے جا رہے ہیں۔ نبیل کا رویہ ویسا ہی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ وہ کوئی کام وغیرہ نہیں کرتا لیکن گھر میں کافی حد تک آسودگی ہے جو ثانیہ کے ریڈی میڈ گارمنٹس کے بزنس کی مرہون منت ہے۔ بنیل کا بھائی بھی ثانیہ سے پیسوں کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔
نبیل کے سب دوست شاعر ہیں سو ثانیہ بھی ان کا اثر قبول کرتے ہوئے شعر کہنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے لئے یہ ایک مختلف دنیا ہے جس میں دل کا درد رنج و غم الفاظ کی صورت میں ظاہر کرنے کی گنجائش ہے۔ دل کی لگی کہنے کے علاوہ وہ شاعری کو ایک ایسا راستہ سمجھتی ہے جس پر چل کر وہ معاشرے میں ایک مقام پا سکتی ہے، ایک’ معتبر عورت کی سی عزت’۔ وہ سلوک جو اسے کسی مرد سے نہیں ملا کہ ابھی تک سب نے اسے پاؤں کی جوتی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *