Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!راجہ گدھ کا تانیثی تناظر اٹھارہویں/ آخری قسط
یہ تمام عورتیں لڑکیاں کسی نہ کسی طرح مردوں کے نارمل نیوکلئیس سے کٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے ان میں بیشتر عورتوں کو مردوں کا زیادہ قرب ملتا ہو لیکن معاشرے کے رسمی طریقے کے مطابق وہ کیرئیر گرلز تھیں ۔ ایسی مینڈکیاں جنہیں ہلکا ہلکا زکام ہو چکا تھا وہ اعلانیہ سگریٹ پیتی تھیں کماؤ سپوت کی طرح گھر پیسے بھیجتی تھیں ۔ ان کے بھائی چچا ماموں نہ جانے کون تھے ، کہاں تھی اور اگر تھے تو کس حد تک ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو سکتے تھے ؟ یہ سب تو چھپکلی کی کٹی ہوئی دم کی طرح پھڑک رہی تھیں ، تڑپ رہی تھیں اور اپنے اصلی رسمی نیوکلئیس کی تلاش میں تھیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر چھٹی قسط
حلال و حرام ، سماجی طبقات، وفا اور بے وفائی، جنس اور کردار، آزادیِ نسواں کی خرابیاں، گدھ کی مردار کھانے کی خصلت، حرام و حلال اور پاگل پن کا فلسفہ ، جینی ٹیکس، ماڈرن تعلیم یافتہ عورت کی بے چارگی، اپّر کلاس کی ناکامی ، مڈل کلاس عورت کی وفا ، طوائف کاحرام رزق، شادی ، روحانیت، وغیرہ وغیرہ۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! چودہویں قسط
امتل سے مل کر میں نے سیمی کی یادوں کو قفل لگا کر رکھ دیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہتا تھا کہ امتل کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر رونے لگوں۔“ امتل قیوم کو لارنس گارڈن لے جاتی ہے جہاں وہ قیوم کو ایک شاعر سے اپنی پرانی محبت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک طوفانی رات جب وہ گھر سے نقدی اور زیورات لے کر شاعر کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں نے رات اکٹھے ایک ہوٹل میں گزاری اور جب وہ سو کر اٹھی تو شاعر بمعہ نقدی اور زیورات کے بھاگ چکا تھا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط
محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛
بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط
تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟