ذلتوں کے اسیر سترہویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط

‏‎سارتر وجودیت کے لیے اپنے تصور کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آزادی، اختیار اور انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگر اس دنیا میں کوئی انسان ان حقوق کو حاصل کیے یا آزمائے بغیر رہتا ہے تو گویا وہ موجود ہی نہیں۔
ذرا اس تصور کا اطلاق ذلّتوں کے اسیر کے مرکزی کردار پر ہی نہیں تمام کرداروں پر کر کے دیکھیں، یہی نہیں اپنے ارد گرد پر بھی کر کے دیکھیں۔ ذرا دیر کو آنکھیں بند کر کے تصور کی آنکھوں سے دیکھیں، سوچیں اور بتائیں کل عورتوں میں سے وجود رکھنے والی یا موجود یا وجودی عورتوں کا تناسب کیا ہے؟
کتنے فیصد عورتوں کو اپنی زندگی پر اختیار ہے؟
کتنے فی صد کی زندگی مرد کے گرد گھومتی ہے؟
کتنے فی صد کے لیے ہر فیصلہ مرد کرتا ہے؟
چاہے باپ ہو، شوہر ہو ، بھائی ہو، بیٹا ہو یا محبوب۔ گویا وہ موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں، گویا ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔
‏‎سیمون ڈی بوا نے اپنی کتاب سیکنڈ سیکس یا دوسرے درجے کی صنف میں ان تمام عوامل پہ سوال اٹھایا جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں یا بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ سیمون کے مطابق عورت اور مرد کے احساسات میں وقت پیدائش کوئی فرق نہیں ہوتا۔ معاشرہ ماحول اور رویے اس انسان کو مرد یا عورت کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔
‏‎
مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔
عورت کے اس کردار کو معاشرے میں اس کا مقدر یا قسمت سمجھ کر قبول کیا جاتاہے اور اسے اس دائرے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
‏‎مرد کا سانچہ بااختیار ، فیصلہ ساز، آزاد منش انسان کا ہے جبکہ عورت کو جس سانچے میں ڈالا جاتاہے وہ نامکمل، بے اختیار، ڈرپوک، بے بس، کم عقل انسان کا ہے۔ اس کے علاوہ اس سانچے پہ اچھی عورت بننے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
اچھی عورت وہ جو اچھی ماں، اور اچھی بیوی، اچھی بیٹی اور اچھی بہن ہو۔ جو عورت اچھے ہونے کے معیار پر پوری نہیں اترے گی اسے معاشرہ قبول نہیں کرے گا۔ مرد کی خطا قابل معافی ہے لیکن عورت کی خطا قابل گردن زنی ہے۔
‏‎
عورت کو مزید کمزور کرنے کے لیے اس کے سانچے پہ ایک اور لیبل نسوانیت کا لگایا جاتاہے۔ چال ڈھال، صورت شکل سے لے کر جسم کے زاویوں تک عورت کو مخصوص معیار پہ پورا اترنا چاہئے۔ جو عورت خوبصورتی کے مخصوص پیمانوں پر پوری نہیں اترے گی اسے رد کر دیا جائے گا۔ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے مرد کا محض مرد ہونا کافی ہے چاہے پہلی نظر کے بعد دوسری کا حوصلہ ہی نہ رہے۔ لیکن عورت پرکشش نہ ہو تو زیرو لائن سے ہی رد کر دی جاتی ہے۔ قابل قبول ہونے کے لیے اُسے کبھی لباس کا سہارا لینا پڑتا ہے اور کبھی دوسرے لوازمات کا۔
‏‎
مرد جو عورت کو کسی بھی راستے پر لے جاتا ہے اور اس پہ چلنے پہ مجبور کرتا ہے اس مرد سے کبھی بھی کوئی سوال نہیں کرتا؟ وہ کسی کٹہرے میں جا کر کھڑا نہیں ہوتا، اس کے لئے نہ زمین تنگ ہو تی ہے اور نہ آسماں۔
‏‎
وہ رنگ ماسٹر ہے، عورت کو سرکس میں اپنے اشاروں پہ نچانے والا آقا اور ثانیہ اپنے ہر تعلق سے اس رنگ ماسٹر کے نئے چہرے سے آشنا ہوتی ہے۔
یعنی انور سن رائے نے صرف ثانیہ نہیں دکھائی، رنگ ماسٹروں کے خاکے بنائے ہیں، ذلّتوں کے اسیر میں جمع کا صیغہ غالباً یہی معنی رکھتا ہے اور اسی سے ذلّت کے معنی بھی متعین ہوتے ہیں۔ میرے لیے یہی بات اس ناول کو نسائی تناظر کا اہم ترین ناول بناتی ہے۔
‏‎
اب یہ بات کہ اس ناول اب تک کوئی اہمیت کیوں حاصل نہیں ہوئی؟
میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انور سِن رائے نے اس میں نہ صرف مرکزی راوی کو اپنا نام دیا ہے بل کہ دوسرے کرداروں کے نام بھی اردو کی ممتاز شاعرہ سارہ شگفتہ کی زندگی اورخود انور سِن رائے کے حلقۂ احباب کے لوگوں کے اصل ناموں سے قریبی مماثلت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس ناول کو سارہ شگفتہ کی غیر مصدقہ سوانح بھی تصور کیا جاتا ہے۔
‏‎
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ فکشن کیا ہوتا ہے؟ کس حد تک حقیقتو ں سے ماخوذ ہوتا ہے اور کس حد تک تصوراتی اور فرضی۔
تو اگر ناول کی ثانیہ، ثانیہ نہیں اور سارا شگفتہ ہے اور ساری روداد لفظ بہ لفظ انہیں ملنے یا ان کی بِتائی ہوئی زندگی کی روداد ہے تو کہنا پڑے گا کہ وہ اپنے عصر کا ایک اہم کردار تھیں اور ہم فکشن پڑھنے والے ابھی حقیقت کو فکشن اور فکشن کو حقیقت کے مقابل رکھ کر عصری معنی کو دریافت کرنے تک نہیں پہنچے۔
‏‎
اس ناول میں تو جیتی جاگتی زندگی کی روانی ایسی ہے کہ سچ مچ کی حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن اس پر مصنف کو داد ملنے کی بجائے شاید چشم پوشی کے عتاب سے نوازا گیا ہے۔ یہ ناول پہلی بار تین دہائی پہلےشایع ہوا تھا اور اب تک محو نہیں ہوا اور اب نئے سرے سے پڑھا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اسے سارا شگفتہ کی شاعری کے تناظر کے طور پر بھی پڑھے اور یہ نہ صرف اپنے لیے نئے معنی لائے بل کہ سارہ کی شاعری کو سمجھنے میں بھی مدد دے

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *