Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیرہویں قسط ;
اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی میں اس گھر تک نہیں پہنچ سکی جسے اپنا کہہ سکوں۔ میں نے کتنے گھر بدلے ہیں، کتنے بستر بدلے ہیں، کتنے ہی لوگوں کو اپنا کہا ہے، کتنے مردوں میں اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک وہ مرد نہیں ملا جو میرا ہو، ہر مرد شوہر بنتے ہی بدل جاتا ہے ۔ یہ باقاعدہ شادی بڑی مہنگی ہوتی ہے آدمی کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑ لیتی ہے۔ عورت اپنا سب کچھ دے کر بھی اپنے آپ کو خرید نہیں سکتی، واپس آنے کے لیے میں دہکتے ہوئے ان دنوں پر ماتم کرتی ہوئی آئی ہوں جن میں ہر دن سو سو سال کا تھا۔“
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! دسویں قسط
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چودہویں قسط ;
ارشد نے بعد میں ثانیہ کو طلاق دے کر تیسری شادی کرلی۔ کراچی میں ثانیہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے کے بعد ایک کارخانے میں نوکری کر لی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اُسےعلم ہوا کہ کارخانے میں کام کرنے والی ورکروں کو مالک کی کچھ اور خواہشیں بھی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ یونس نامی مالک کی نظر ثانیہ پر پڑی اور بہت جلد دونوں کے جسمانی تعلقات استوار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں ثانیہ حاملہ ہو گئی ۔ یونس کی مدد سے ہی ثانیہ نے اس حمل کو ضائع کروا دیا۔ اس کے بعد ثانیہ نے اس سے تعلقات ختم کر دیے کہ اسے ایک گھر کی خواہش ہونے لگی تھی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! گیارہویں قسط
لیکن اس موڑ پر سیمی کا کردار بانو کے قلم پر حملہ آور ہو کر عابدہ کو اس روپ میں ڈھل جانے پر مجبور کرتا ہے جس بنیاد پر بانو سیمی کو بری عورت دکھانا چاہتی ہیں۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا حرام جنسی تعلق۔ عابدہ ایک اجنبی مرد کی طرف اسی طرح بڑھتی ہے جیسے سیمی۔ لیکن عابدہ اس لعن طعن سے محفوظ رہی جس طرح سیمی کو راندہ درگاہ دکھایا گیا۔ عابدہ کے منہ میں زبان تو بانو کی ہے لیکن وہ، وہ کر رہی ہے جو سیمی نے کیا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط
محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛
بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔