Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر ایک
راجہ گدھ خریدی، پڑھی اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گئے۔ یہ اسیری اس حد تک بڑھی کہ دوسروں کو بھی یہی ناول پڑھنے کی صلاح دینے لگے۔ لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ آگ کا دریا ، دستک نہ دو اور اداس نسلیں کئی برس پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ لیکن راجہ گدھ میں کیا تھا جو فوراً ہی ہمارے پسندیدہ ناولوں کی صف میں پہلے نمبر پر جا کھڑا ہوا
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط
کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط
ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ دوسری قسط
نبیل پدرسری معاشرے کی ایک ایسی تصویر ہے جسے جس رخ سے بھی دیکھیں، وہ ملگجی اور داغ دار ہی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے، دنیا بدلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے محنت کرنا نہیں چاہتا۔ عورتوں سے دوستی پہ یقین رکھتا ہے لیکن جونہی کسی عورت سے دوستی کرتا ہے، جنسی خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ مردوں کے درمیان بے تکلف دوستی کو تسلیم کرتا ہے لیکن ثانیہ کے پرخلوص التفات کو محض دوستی سمجھنے پر تیار نہیں۔ اس کے خیال میں ایک عورت کسی مرد سے دوستی کے بعد اتنا خیال تب ہی رکھ سکتی ہے جب محبت بھی کرتی ہو۔ وہ ثانیہ کو غیر شادی شدہ اس لئے سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں کوئی بھی شادی شدہ عورت کسی مرد کو دوست بنا کر لگاؤ کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! سولہویں قسط
بھابھی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عام سی عورت جو مرد اور عورت کے تعلق کو روایتی عینک سے دیکھتی ہے ۔ کم از کم بانو نے اسے یہی روپ عطا کیا ہے لیکن بیچ بیچ میں بھابھی کا کردار بانو کے قلم کی نہ مانتے ہوئے خودسری پہ اتر آتا ہے۔ بانو ناول کی سچوئشن بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ بھابھی کا underplay بھانپ ہی نہیں پاتیں۔آئیے دیکھتے ہیں کیسے ؟