ذلتوں کے اسیر چھٹی قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چھٹی قسط

نبیل کو ثانیہ کی شاعری پسند آتی ہے اور وہ اسے نہ صرف صوفی قرار دیتا ہے بلکہ اس کے مطابق اردو میں ثانیہ سے بڑی شاعرہ اب تک پیدا نہیں ہوئی۔
اس تعریف کے پیچھے بھی نبیل اپنا فائدہ دیکھ رہا ہے۔ بیوی کے شاعرہ ہونے کی صورت میں شوہر کی واہ واہ تو ہو ہی جاتی ہے۔ شاعری کرنے والا جوڑا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
شاعری کرنے کے بعد ثانیہ کی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے۔ اب اسے معاشرے کے پڑھے لکھے دانشور شاعر مردوں کا سامنا ہے۔ یہاں ایک نئی صورت جنم لیتی ہے۔
شعر و ادب کے اس حلقے میں سب ایک شاعرہ کی قربت میں آنے کے لئے بے قرار ہو رہے ہیں۔ نہ جانے شاعری ان کے شوق کو ہوا دے رہی ہے یا ایک عورت کی شاعری اور عورت بھی وہ جو طرح دار بھی ہے اور چیلنج کرنا بھی جانتی ہے۔
ان میں نبیل کے دوست امثال، اعزاز اور احمد قریش سر فہرست ہیں جو اس کی تعریفوں کے جھوٹے سچے پل باندھنے میں مصروف ہیں۔
احمد قریش کہتا ہے :
اصل میں تمہارے اندر ایک عجیب روح ہے۔ تم تو اس دنیا کی ہو ہی نہیں، تم دراصل اس معاشرے کی باغی ہو۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ تم بھی میری طرح گپت عہد کی روح ہو۔
تم چتر لیکھا ہو، بالکل۔ بالکل تم چتر لیکھا ہو۔ جانتی ہو چتر لیکھا کون تھی؟ نہیں جانتیں، میں تمہیں بتاتا ہوں۔
چتر لیکھا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے عہد کی عظیم رقاصہ وہ بہت بڑی تخلیقی قوت اور اپنے زمانے کی ایسی عالم تھی کہ بڑے بڑے جوگی اور عالم اس کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ اس کے گھر آتے تھے اس سے گفتگو کرتے تھے۔ چتر لیکھا اپنے جسم سے شعر کہتی تھی اور اپنے ہاتھوں کی حرکت سے لوگوں کو وجود میں لے آتی تھی۔ اور تم ثانیہ سمجھ رہی ہیں نا آپ۔ آپ کی شاعری میں لفظ اس طرح حرکت کرتے اور سننے والے کی روح تک پہنچتے ہیں کہ جیسے چتر لیکھا رقص کر رہی ہو۔ ثانیہ کی شاعری میں ایک ڈونڈی ہے، ایک موہ ہے، ایک لبھاؤ ہے جو اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ جب یہ ہنستی ہیں نا تو ان کا موہ اور بڑھ جاتا ہے۔
میں تم لوگوں کو چتر لیکھا کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اگر تم اس کے بارے میں جان لو تو ثانیہ کی شاعری کے بارے میں خود بخود جان جاؤ گے۔
چتر لیکھا برہمن زادی تھی لیکن اس کی پہلی دونوں شادیاں کامیاب نہ ہو سکیں۔ جب اس کے پہلے شوہر کا انتقال ہوا تو اس کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں کرشن دت آ گیا۔ دونوں کی شادی تو نہیں ہوئی لیکن کرشن دت سے اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن جلد ہی کرشن دت اور اس کا بیٹا بھی انتقال کر گئے۔ جس کے بعد چتر لیکھا نے ایک رقاصہ کے ہاں پناہ لی۔ اسی نے رقص اور سنگیت سکھا کر چتر لیکھا کو پوٹلی پتر کی حسین ترین رقاصہ اور گائیکہ بنا دیا۔
چتر لیکھا مستی اور دیوانگی کو زندگی کا سکھ جانتی تھی۔ اور اس سکھ کی تسکین وہیں ممکن ہو سکتی ہے جہاں خواہش ہو گی اور خواہش پوری کرنے کی کوشش ہو گی۔ ثانیہ کی شاعری میں یہی دیوانگی نظر آتی ہے جو ہر چیز توڑ پھوڑ دیتی ہے۔
ثانیہ، میں اندر سے صوفی ہوں، اندر سے جوگی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں بھی چتر لیکھا کا جنم ہوں اور تم بھی مجھے ایک جوگی لگنے لگتی ہو۔ ایک صوفی جو جانتی ہے کہ وہ اس جسم میں بہت کم عرصہ قیام کے لیے آئی ہے۔ اس جسم میں رہ کر اسے اس روح کو تلاش کرنا ہے جو کسی جنم میں اس سے بچھڑ گئی تھی
احمد قریش کا ثانیہ سے عشق جھاڑنے، اکسانے، ورغلانے اور عاشق ہو جانے کا خبط سب بھانپ جاتے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اپنے ہی جونیئر دوست کی بیوی کے ساتھ یہ ٹھرک؟
یہاں یہ بات پھر کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو معاشرے سے مختلف سمجھنے والے ادیب مرد بھی پدرسری نظام سے نہیں بچ پاتے جہاں سامنے شاعرہ کی بجائے عورت نظر آنے لگتی ہے۔ کیا احمد قریش ایک ساتھی مرد شاعر کے ساتھ یہ سلوک کر سکتا تھا؟
ایک حالات کی ماری کم پڑھی لکھی عورت جو اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، اسے چتر لیکھا کی کہانی سنا کر اور اس سے تشبیہ دے کر اس عورت کو جذباتی طور پہ اپنے قابو میں لانا ہی تو ہے۔
ناول میں کہانی سنانے والا کردار انور سن رائے اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
احمد قریش ثانیہ کی کمزوری بھانپ چکا تھا۔ ثانیہ کے لئے اپنے جسم اور اپنے حسن کی تعریف نئی بات نہیں تھی وہ ابھی تک جتنے مردوں سے ملی تھی انہوں نے اسے جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ شعر لکھ کر وہ اپنی ذہانت اور تخلیقی قوت کو منوانا چاہتی ہے اور اس ضمن میں اس کی تعریف اس کے لئے نئی بات ہے۔ یہ اس کی زندگی میں پہلا موقع ہے کہ اسے یہ احساس ہوا ہے کہ وہ نہ صرف سوچ سکتی ہے بلکہ اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچا سکتی ہے
لیکن اس کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس تعریف پرکھنے کا اپنا کوئی معیار نہیں ہے۔ سو تعریف کے ذریعے ثانیہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ احمد قریش کو ویسے بھی اپنے جنسی جذبات پر کوئی کنٹرول نہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے انوکھے پن کا جواز پیدا کرنے میں وہ کوئی قباحت نہیں سمجھتا۔
یہ مرحلہ قاری کے لئے کرب انگیز ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک حالات کی ماری عورت، دنیا کے بازار میں بے رحمی کا شکار ہوتی ہوئی محض عزت اور انسان سمجھے جانے کی تڑپ میں ان لوگوں تک آ پہنچی ہے جنہیں وہ عام لوگوں سے بہتر سمجھتی ہے۔ جو شعور رکھتے ہیں، جن کے نزدیک عورت اور مرد کا صنفی تفاوت اہم نہیں لیکن اس عورت کے ساتھ اس گروہ میں بھی ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ نظر یہی آتا ہی کہ پڑھے لکھے ادیب اور شاعر معاشرے کی برائیاں بے نقاب کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اندر سے کم و بیش تمام مرد عورت کو انسان سمجھنے پہ تیار نہیں۔
ناول میں کہانی گو انور سن رائے ہمیں اس گروہ سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ساتھی شاعرہ مدیحہ سے ان کی کمٹمنٹ ہے اور ان کی شادی ناول میں ہی دکھائی جاتی ہے۔ دوسری وجہ ان کا کہانی گو ہونا بھی ہو سکتا ہے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *