ذلتوں کے اسیر سولہویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط

ثانیہ کا دردناک انجام پڑھنے والے کو دکھی کر دیتا ہے لیکن سوچ کے بہت سے دروازے وا کر کے غور کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ تیرہ برس کی بچی کا سولہ برس اس دنیا میں گزار کر اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کن عوامل کے نتیجے میں ہوا؟
‏‎وہ جن راہوں پر چلی، اسے اس طرف دھکیلنے کا ذمہ دار کون تھا؟
‏‎فہرست تو طویل نظر آتی ہے لیکن سر فہرست ثانیہ کا باپ رشید کوچوان ہے۔ ‏‎پانچ بیٹیوں کو اس دنیا میں لا کر انہیں بوجھ اور ان چاہی اولاد سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑانا، یہ ہے ثانیہ کی کہانی کا نقطہ آغاز۔
‏‎تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟ ‏‎
رشید کوچوان کا کردار اتنا حقیقی ہے کسی طرح بھی مصنوعی یا عام معاشرے سے باہر کا محسوس نہیں ہوتا۔ ناول کی خوبی یہ ہے کہ تمام سنگین باتیں غیر ڈرامائی اور بہت عمومی انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ ‏‎رشید کوچوان جیسے مردوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے جو بیوی کو اپنے برابر کا تو کیا انسان بھی نہیں سمجھتے۔
پہلا ظلم تو یہ ہے کہ جس طبقے سے رشید کوچوان تعلق رکھتا ہے اسے اس سوچ سے ہی محروم رکھا جاتا ہے۔ غالب اکثریت کے لئے عورت اور بیٹیوں کو بھی یکساں طور پر کمتر مخلوق سمجھنا اتنا عام ہے کہ کسی کو غیر فطری اور غیر انسانی محسوس ہی نہیں ہوتا۔ اس بیوی یا بیٹیوں کے ساتھ نامناسب اور کمتر سلوک غیر درست محسوس ہی نہیں ہوتا۔
اس نفسیاتی رویے کا ایک اہم پہلو معیشت یا معاشرے معاشی ساخت بھی ہے۔ لڑکے کو اہم سمجھنے کی نفسیات ان مالی فوائد سے جڑی ہے جو بیٹے کی صورت میں حاصل ہوں گے۔
دوسرا پہلو طاقت کا حصول ہے۔ بیٹے ہونے کی صورت میں باپ طاقتور سمجھا جائے گا جبکہ بیٹیوں کا باپ ہونا کمزوری کی نشانی ہے کہ ان کے شوہر اپنی بیوی کے ذریعے اس کے ماں باپ کو جھکنے اور ناجائز مطالبات ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس بات کو ناول میں رشید کے رویے میں اس تبدیلی سے ظاہر کیا گیا ہے جو پہلی بیٹی کے رشتے اور پھر دوسری بیٹی کے رشتے سے ملنے والے رقم سے گھر میں آنے والی خوش حالی اور اپنا تانگہ گھوڑا ہو جانے کی صورت میں آتی ہے۔ ‏‎ان رشتوں کے بعد ہی دوسری بیٹیوں سے رشید کے رویے میں تبدیلی آتی ہے اور وہ انہیں بہتر لباس بھی دلاتا ہے۔
ناول میں اس کا اظہار صرف بیٹیوں سے بدلے ہوئے رویے سے نہیں کیا گیا، بیوی سے بھی رویہ تبدیل دکھایا گیا ہے۔ ‏‎شادی کے بعد ثانیہ بری طرح جنسی تشدد کا نشانہ بنی اور اس تشدد نے اسے وہ بنا دیا جس کے نتیجے میں وہ انتیس برس کی عمر میں دنیا چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔
‏‎ثانیہ کا جسم تیرہ برس کی عمر سے جس طرح استعمال کیا گیا، اس نے اس کی ذہنی صحت مسخ کر دی۔ پھر بھی اس نے اپنے طور پہ زندہ رہنے کی کوشش کی مگر اس کے اردگرد رہنے والے مردوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ ان میں اس سے محبت کا دعویٰ کرنے والے، اسے بڑی شاعرہ ماننے والے، اس سے ہمدردی جتانے والے، حتی کہ گھر والے بھی شامل تھے۔ کسی کو اس سے مالی معاونت چاہیے تھی اور کسی کو اس کا جسم۔ کسی کو اس کی بولڈ نیس بھاتی تھی تو کوئی اسے زیر کرنا چاہتا تھا۔
‏‎تیرہ برس سے انتیس برس تک اس کے جسم کے بہت سے امیدوار سامنے آئے جنہوں نے اسے جیتا جاگتا انسان سمجھنے کی بجائے استعمال کی شے سمجھا۔ ان تجربات کے بعد اس نے معاشرے کو وہی دینے کی کوشش کی جو اسے ملا تھا۔ سولہ برس میں جتنی ذلت و خواری اسے ملی تھی، وہ اب مردوں کو وہی لوٹانا چاہتی تھی۔ وہ مردوں کو اسی طرح روند دینا چاہتی تھی جس طرح اسے روندا گیا۔
‏‎انور سن رائے نے اس کی جذباتی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ثانیہ کی تصویر سامنے آ جاتی ہے، خوبی یہ ہے کہ یہ نسائیت اور نسائی شعور کی بلوغت کو بھی ظاہر کرتے ہیں :
‏‎ ”اس لئے اب میں عورت نہیں رہنا چاہتی، میں مرد بننا چاہتی ہوں، میں مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتی ہوں بڑا ادھار نکلتا ہے میرا اور اپنا سب ادھار وصول کرنا چاہتی ہوں“ ‏‎پہلے آیا ہے کہ مرد بننا چاہتی ہوں کیونکہ مردوں کو اشاروں پر نچانا ہے۔ اس معاشرتی ساخت میں کسی کو نچانے کا منصب مردانگی سے مشروط و منصوب ہے۔ پھر ادھار اور ادھار کی وصولی کے الفاظ ہیں۔
‏‎ثانیہ کی زندگی کی کہانی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ جن میں سب سے بڑا سوال عورت کی ذات اور وجود کے بارے میں ہے۔ ‏‎کیا عورت کا وجود ایک حقیقت ہے یا عورت محض ایک استعمال کی چیز ہے جسے مردوں کی اکثریت ایک ہی طرز سے ملکیت میں لانا چاہتی ہے۔ ان مردوں میں پڑھے لکھے، ان پڑھ، دانشور، مزدور کی کوئی تخصیص نہیں۔ ‏‎
عورت اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اپنے وجود کے تشخص سے محروم ہے۔ وہ صنف مخالف کی ضروریات پورا کرنے، نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا ایک آلہ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن بحیثیت ایک انسان، وہ خود کیا چاہتی ہے یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *