Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیرہویں قسط ;
اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی میں اس گھر تک نہیں پہنچ سکی جسے اپنا کہہ سکوں۔ میں نے کتنے گھر بدلے ہیں، کتنے بستر بدلے ہیں، کتنے ہی لوگوں کو اپنا کہا ہے، کتنے مردوں میں اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک وہ مرد نہیں ملا جو میرا ہو، ہر مرد شوہر بنتے ہی بدل جاتا ہے ۔ یہ باقاعدہ شادی بڑی مہنگی ہوتی ہے آدمی کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑ لیتی ہے۔ عورت اپنا سب کچھ دے کر بھی اپنے آپ کو خرید نہیں سکتی، واپس آنے کے لیے میں دہکتے ہوئے ان دنوں پر ماتم کرتی ہوئی آئی ہوں جن میں ہر دن سو سو سال کا تھا۔“
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پانچویں قسط
شادی کے کچھ عرصے بعد ہی علم ہوجاتا ہے کہ گھر میں خاک اڑ رہی ہے۔ ثانیہ فاقے کرنے پر مجبور ہے اور نبیل اپنی پسند کی عورت گھر لانے کے بعد بے نیاز ہو کر شعر و شاعری کی محفلوں میں پھر سے گم ہو چکا ہے۔ وہی طور طریقے جو شادی سے پہلے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ شاعر کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے غفلت اس کی سہل پسند فطرت کی عکس ہے اور یہاں شاعر کی شاعری پر سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! نویں قسط
ثانیہ ہسپتال میں مردہ بچے کو جنم دیتی ہے اور اکیلے ہی اس کی تدفین کر دیتی ہے۔ بچے کی موت پہ اس کا…
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط
ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر دو
کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد سیمی خودکشی کر لیتی ہے ۔ قیوم اس کی موت کے بعد بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے۔ ایسے میں پروفیسر سہیل اسے یوگا کی مشقوں کا مشورہ دیتا ہے۔ قیوم اپنے بڑے بھائی کے ہاں رہائش پذیر ہے اور اسے ریڈیو پروڈیوسر کی نوکری مل چکی ہے۔ انہی دنوں بھابھی کی کزن عابدہ بھی اولاد نہ ہونے پر شوہر اور ساس کے طرز عمل پر ناراض ہو کر وہ وہاں رہنے آتی ہے۔ عابدہ بہت باتونی ، متجسس اور گھریلو عورت ہے اور آہستہ آہستہ اسی کی تحریک پر قیوم کے اس سے جنسی تعلق بنتا ہے۔ مصنفہ کے نزدیک ان تعلقات کا پوشیدہ محرک عابدہ کی اولاد پانے کی خواہش ، شوہر کی دوری اور قیوم کے لیے جنسی اساس والی یوگا مشقیں ہیں۔ لیکن جب عابدہ کا شوہر اُسے منانے آتا ہے تو وہ موقع غنیمت جان کرواپس لوٹ جاتی ہے۔ پروفیسر سہیل پاگل پن ، خود کشی اور جینیات کو حرام حلال کی تھیوری سے جوڑ کر قیوم کو سناتا ہے۔