Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!راجہ گدھ کا تانیثی تناظرسترہویں قسط
وہ دس سال کا ہے ، اسے عجیب عجیب خواب آتے ہیں۔ پہلے بہت صحت مند یعنی بھرے جسم کا تھا پھر ان خوابوں کی وجہ سے اس کا وزن گھٹنے لگا ۔ وہ آدھا آدھا گھنٹہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا رہنے لگا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ کیٹاٹونکcatatonic, حالت میں ہے جبکہ افراہیم کہتا ہے کہ اس نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ وہ خود کو دنیا کا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ کبھی وہ فر فر عربی بولتا ہے، کبھی عبرانی میں باتیں کرتا ہے، کبھی بتاتا ہے کہ اسے فرشتہ پھل کھلانے آتا ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! گیارہویں قسط
لیکن اس موڑ پر سیمی کا کردار بانو کے قلم پر حملہ آور ہو کر عابدہ کو اس روپ میں ڈھل جانے پر مجبور کرتا ہے جس بنیاد پر بانو سیمی کو بری عورت دکھانا چاہتی ہیں۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا حرام جنسی تعلق۔ عابدہ ایک اجنبی مرد کی طرف اسی طرح بڑھتی ہے جیسے سیمی۔ لیکن عابدہ اس لعن طعن سے محفوظ رہی جس طرح سیمی کو راندہ درگاہ دکھایا گیا۔ عابدہ کے منہ میں زبان تو بانو کی ہے لیکن وہ، وہ کر رہی ہے جو سیمی نے کیا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چودہویں قسط ;
ارشد نے بعد میں ثانیہ کو طلاق دے کر تیسری شادی کرلی۔ کراچی میں ثانیہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے کے بعد ایک کارخانے میں نوکری کر لی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اُسےعلم ہوا کہ کارخانے میں کام کرنے والی ورکروں کو مالک کی کچھ اور خواہشیں بھی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ یونس نامی مالک کی نظر ثانیہ پر پڑی اور بہت جلد دونوں کے جسمانی تعلقات استوار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں ثانیہ حاملہ ہو گئی ۔ یونس کی مدد سے ہی ثانیہ نے اس حمل کو ضائع کروا دیا۔ اس کے بعد ثانیہ نے اس سے تعلقات ختم کر دیے کہ اسے ایک گھر کی خواہش ہونے لگی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چھٹی قسط
چتر لیکھا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے عہد کی عظیم رقاصہ وہ بہت بڑی تخلیقی قوت اور اپنے زمانے کی ایسی عالم تھی کہ بڑے بڑے جوگی اور عالم اس کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ اس کے گھر آتے تھے اس سے گفتگو کرتے تھے۔ چتر لیکھا اپنے جسم سے شعر کہتی تھی اور اپنے ہاتھوں کی حرکت سے لوگوں کو وجود میں لے آتی تھی۔ اور تم ثانیہ سمجھ رہی ہیں نا آپ۔ آپ کی شاعری میں لفظ اس طرح حرکت کرتے اور سننے والے کی روح تک پہنچتے ہیں کہ جیسے چتر لیکھا رقص کر رہی ہو۔ ثانیہ کی شاعری میں ایک ڈونڈی ہے، ایک موہ ہے، ایک لبھاؤ ہے جو اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ جب یہ ہنستی ہیں نا تو ان کا موہ اور بڑھ جاتا ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پندرہویں قسط
اب سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں انتہائی پڑھے لکھے لڑکوں نے کم پڑھی لکھی اور گھر میں رہنے والی لڑکیوں سے شادی کی خواہش کیوں کی؟ بانو کا فلسفہ بہت سے ذہنوں کو اسیر کر چکا تھا اور یہی مقصد بھی تھا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – گیارہویں قسط
ثانیہ اور امثال کی ملاقاتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ایسا کرنے میں امثال کی خواہش زیادہ ہے ۔ امثال ثانیہ کواپنے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ یہاں آپ دونوں کرداروں کا تقابل کیجئیے۔