Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! نویں قسط
سیمی آسانی سے قابو آنے والی لڑکی نہ تھی۔ وہ خودسر، ضدی خوب پڑھی لکھی اور فیشن ایبل تھی۔ اس کی باتوں میں واشنگٹن ڈی سی کا دبکا تھا۔ اپنی رائے چاہے وہ کیسی بھی دور پار یا انوکھی کیوں نہ ہو اس کے اظہار کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ وہ اصلی معنوں میں ماڈرن تھی کیونکہ ہر ننگے لباس میں وہ ڈھکی رہتی۔ اس نے جو کچھ مغرب سے لے کر اپنا لیا تھا اب اس کی ذات کا حصہ تھا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چھٹی قسط
چتر لیکھا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے عہد کی عظیم رقاصہ وہ بہت بڑی تخلیقی قوت اور اپنے زمانے کی ایسی عالم تھی کہ بڑے بڑے جوگی اور عالم اس کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ اس کے گھر آتے تھے اس سے گفتگو کرتے تھے۔ چتر لیکھا اپنے جسم سے شعر کہتی تھی اور اپنے ہاتھوں کی حرکت سے لوگوں کو وجود میں لے آتی تھی۔ اور تم ثانیہ سمجھ رہی ہیں نا آپ۔ آپ کی شاعری میں لفظ اس طرح حرکت کرتے اور سننے والے کی روح تک پہنچتے ہیں کہ جیسے چتر لیکھا رقص کر رہی ہو۔ ثانیہ کی شاعری میں ایک ڈونڈی ہے، ایک موہ ہے، ایک لبھاؤ ہے جو اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ جب یہ ہنستی ہیں نا تو ان کا موہ اور بڑھ جاتا ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر تین
سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔ اس نے موری بند جینز کے اوپر سفید وائل کا کرتا پہن رکھا تھا۔ گلے میں حمائل مالا نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے بیگ میں غالباً نقدی ، لپ اسٹک ، ٹشو پیپر تھے۔ ایک ایسی ڈائری جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے درج تھے۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے لگتے تھے۔کلاس میں پہلے دن چھڑنے والی بحث کو خود کشی کی طرف لے کر جانے والی سیمی ہی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ ساتویں قسط
میں نے دیکھا ہے، سب رشتے بکواس ہیں۔ مرد صرف مرد ہوتا ہے اور عورت صرف عورت۔ جب تک داؤ نہیں چلتا، رشتے بنے رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، مرد مرد بن جاتا ہے اور عورت عورت بن جاتی ہے۔ اور ہر مرد عورت سے کھیلتا ہے جب تک اس کا دل چاہتا ہے وہ عورت سے کھیلتا ہے اور جب اس کا دل بھر جاتا ہے وہ کسی اور کی طرف چل دیتا ہے۔ اس لئے اب میں عورت نہیں رہنا چاہتی، میں مرد بننا چاہتی ہوں، میں مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتی ہوں۔ بڑا ادھار نکلتا ہے میرا اور اپنا سب ادھار وصول کرنا چاہتی ہوں۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط
مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چودہویں قسط ;
ارشد نے بعد میں ثانیہ کو طلاق دے کر تیسری شادی کرلی۔ کراچی میں ثانیہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے کے بعد ایک کارخانے میں نوکری کر لی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اُسےعلم ہوا کہ کارخانے میں کام کرنے والی ورکروں کو مالک کی کچھ اور خواہشیں بھی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ یونس نامی مالک کی نظر ثانیہ پر پڑی اور بہت جلد دونوں کے جسمانی تعلقات استوار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں ثانیہ حاملہ ہو گئی ۔ یونس کی مدد سے ہی ثانیہ نے اس حمل کو ضائع کروا دیا۔ اس کے بعد ثانیہ نے اس سے تعلقات ختم کر دیے کہ اسے ایک گھر کی خواہش ہونے لگی تھی۔