Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پانچویں قسط
شادی کے کچھ عرصے بعد ہی علم ہوجاتا ہے کہ گھر میں خاک اڑ رہی ہے۔ ثانیہ فاقے کرنے پر مجبور ہے اور نبیل اپنی پسند کی عورت گھر لانے کے بعد بے نیاز ہو کر شعر و شاعری کی محفلوں میں پھر سے گم ہو چکا ہے۔ وہی طور طریقے جو شادی سے پہلے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ شاعر کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے غفلت اس کی سہل پسند فطرت کی عکس ہے اور یہاں شاعر کی شاعری پر سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت سے بے نیاز نظر آتی ہے۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! دسویں قسط
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط
کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر تین
سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔ اس نے موری بند جینز کے اوپر سفید وائل کا کرتا پہن رکھا تھا۔ گلے میں حمائل مالا نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے بیگ میں غالباً نقدی ، لپ اسٹک ، ٹشو پیپر تھے۔ ایک ایسی ڈائری جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے درج تھے۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے لگتے تھے۔کلاس میں پہلے دن چھڑنے والی بحث کو خود کشی کی طرف لے کر جانے والی سیمی ہی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پہلی قسط
ایک ایسا ناول جس کا بنیادی کردار ایک ایسی عورت سے متاثر ہو کر بنایا گیا جو اپنے متعدد جنسی معاشقوں، شادیوں، بے راہ روی اور پراسرار موت کی وجہ سے آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ ایک ذلت آمیز زندگی گزار کر رخصت ہو جانے والی ہی تو ذلتوں کی اسیر تھی۔ پھر عنوان ذلتوں کے اسیر کیوں؟ کیا یہ کتابت کی غلطی ہے، طباعت کی یا انور سن رائے سے چوک ہو گئی؟ کیونکہ ناول کے نام کا صیغہ واحد نہیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر چھٹی قسط
حلال و حرام ، سماجی طبقات، وفا اور بے وفائی، جنس اور کردار، آزادیِ نسواں کی خرابیاں، گدھ کی مردار کھانے کی خصلت، حرام و حلال اور پاگل پن کا فلسفہ ، جینی ٹیکس، ماڈرن تعلیم یافتہ عورت کی بے چارگی، اپّر کلاس کی ناکامی ، مڈل کلاس عورت کی وفا ، طوائف کاحرام رزق، شادی ، روحانیت، وغیرہ وغیرہ۔